آخر کون ہے یہ دنیش چندیمل؟

کرکٹ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسری لنکا کے کپتان دنیش چندی مل
    • مصنف, سمیع چوہدری
    • عہدہ, کرکٹ تجزیہ کار

پلکوں پہ گرد جم رہی تھی، آنکھوں میں خواب بجھ رہے تھے، سانسوں کا ربط منتشر ہو رہا تھا، تمام چہروں پہ ایک ہی سوال تھا، 'یہ دنیش چندیمل کون ہے بھئی؟'

آخر کون ہے یہ دنیش چندیمل؟

جب سری لنکا نے پہلے روز لنچ سے قبل تیسری وکٹ گنوائی، تب کس نے سوچا تھا کہ کوئی دنیش چندیمل بھی ہوا کرتا ہے جو وقت کو روکنے کا ہنر جانتا ہے۔ ہم تو سمجھے تھے کہ یہ بھی ہم جیسی ینگ ٹیم ہی ہے، ہم سا نو آموز کپتان ہی ہے بلکہ ہم سے بھی گیا گزرا۔

ابھی اپنے ہوم گراونڈز پہ پوری سیریز ہار کر آ رہا ہے، ایک دو کے سوا سارے نئے ہی ہیں، ہم سی کرکٹ ہی کھیلتے ہوں گے، اکسٹھ پہ تین آوٹ کر لئے ہیں، ڈھائی سو پہ قصہ ختم ہو جائے گا۔

لیکن پھر ڈھائی سو ہو گیا اور چندیمل کریز پر موجود تھا۔ پھر تین سو ہوا۔ تب بھی چندیمل کریز پر ہی تھا۔ پھر ساڑھے تین سو ہو گیا اور چندیمل پھر بھی کھڑا تھا۔

پاکستان جو بھی پلان لے کر میدان میں اترا تھا، یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اپنے ہوم گراونڈز پہ کلین سویپ ہو کر آنے والی ٹیم ان کے ہوم گراونڈ پہ ان کے خلاف ڈیڑھ سو اوورز کھیل جائے گی۔

اور وہ بھی ابوظہبی کی اس دھوپ میں جہاں سورج کے سوا سب کچھ سرد پڑ جاتا ہے۔ اور پھر چندیمل، جس نے وہ کیا جو ان گراونڈز پہ کبھی یونس و مصباح کیا کرتے تھے۔

کرکٹ

،تصویر کا ذریعہAFP

جب سری لنکا کی پہلی اننگز لپیٹ کر پاکستان ڈریسنگ روم لوٹا، ساڑھے پانچ سیشنز بیت چکے تھے۔ اور المیہ یہ تھا کہ ان ساڑھے پانچ سیشنز میں کل ملا کر پاکستان کوئی دو سیشنز ہی اپنے نام کر پایا تھا۔ باقی تمام وقت ایک تشنہء جواب سوال کی نذر رہا، 'کون ہے یہ دنیش چندیمل؟'

ٹیسٹ کرکٹ کی خوبی یہ ہے کہ اس کی طوالت غلطیوں کو درست کرنے کے موقع بھی دیتی ہے۔ اول تو ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں چار سو رنز کی مار پڑنے کے بعد اٹھنا ہی محال ہوتا ہے لیکن اگر پھر بھی قسمت، موسم اور وکٹ سبھی یاوری کر رہے ہوں تو تگڑی برتری حاصل کئے بغیر پلٹ آنا سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے۔

اور پاکستان نے یہ غلطی بھی کی۔

کل شام جب تین روز سے بے سدھ پڑی وکٹ میں اچانک زندگی کی رمق جاگی تو پاکستان کے کیمپ میں ایک بار پھر امید نے انگڑائی لی۔ بلاشبہ پاکستان نے دوسری اننگز میں بہت اچھی بولنگ کی مگر دو کیچز ڈراپ کرنا اور ایک قیمتی رن آؤٹ کا چانس گنوانا میچ کے اس لمحے میں ایک سنگین غلطی تھی۔

پاکستان نے یہ سنگین غلطی بھی کی۔

جس طرح کا باؤنس اور تیکھا پن اس وکٹ میں کل شام سے آنے لگا تھا، پاکستان کو چوتھی اننگز میں سو رنز سے زائد کوئی بھی ہدف مشکل میں ڈال سکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان نے فیلڈ میں کوتاہیاں کی۔ اور ہدف کو خطرے کے نشان تک جانے دیا۔

کرکٹ

،تصویر کا ذریعہAFP

جس وقت حارث سہیل اور اسد شفیق جیسے حادثاتی پارٹ ٹائم بولر وکٹیں لے رہے تھے، تب اظہر علی سے چار اوور پھینکوانے میں کیا امر مانع تھا؟ یہی نہیں جب پہلی اننگز میں بھی یاسر شاہ کو وکٹ سے کوئی مدد نہیں مل رہی تھی، تب بھی اظہر کو زحمت نہیں دی گئی۔

پھر میچ کے بعد جب سرفراز یہ کہتے ہیں کہ پارٹنرشپس کی ضرورت تھی، وہ نہیں لگ سکیں تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ آخر کیوں دونوں اننگز میں وہ خود اپنی وکٹ پھینک کر آئے۔ بالخصوص جب دوسری اننگز میں حارث سہیل اور ان کے درمیان ایک اچھی پارٹنرشپ لگ رہی تھی، تب اس پچ پہ ہیراتھ ایسے بولر کے خلاف کریز سے چار میل باہر نکل کر وہ کون سی پارٹنر شپ لگانا چاہ رہے تھے؟

ہیراتھ چار سو وکٹوں کے سنگ میل تک پہنچ چکے ہیں۔ چندیمل کے چہرے پہ خوشی امڈ امڈ پڑتی ہے۔ سری لنکن ڈریسنگ روم میں جشن کا سماں ہے۔ کچھ ہی دور ایک اور ڈریسنگ روم بھی ہے جہاں سبھی چہرے لٹکے ہوئے ہیں، کوئی کسی سے نظریں ملانے کو تیار نہیں۔ ان کی آنکھوں میں شاید ابھی تک ایک ہی سوال اٹکا ہوا ہے۔

آخر یہ دنیش چندیمل کون ہے؟

آج پاکستان یہ میچ اپنی بیٹنگ سے نہیں ہارا، دوسرے ہی دن اپنی بولنگ سے ہار گیا تھا۔ اس کے بعد کس نے کتنی وکٹیں لی، کتنے رنز بنائے، کب کریز سے نکلا اور کیوں پویلین لوٹا، سب رسمی تھا۔