آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
حیران ہی نہیں بلکہ لوگ پریشان بھی ہو گئے
- مصنف, سمیع چوہدری
- عہدہ, کرکٹ تجزیہ کار
کسی دانا نے کہا تھا کہ زندگی اپنی خوبیوں پہ بسر کی جاتی ہے، دوسروں کی خامیوں پہ نہیں۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ بھارت کی بیٹنگ دنیا کا مضبوط ترین لائن اپ ہے اور وہ ہمیشہ ہدف کے تعاقب کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی بیٹنگ بلا مبالغہ دنیا کا کمزور ترین لائن اپ ہے اور پاکستان معمولی سے معمولی ہدف کے تعاقب میں بھی پگھل سکتا ہے۔
لیکن سرفراز نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا تا کہ بھارت کو ہدف طے کرنا پڑے، تعاقب نہ کرنا پڑے۔
میچ سے پہلے اپنی پریس کانفرنس میں انھوں نے یہ کہا تھا کہ اس بار بھارت کے خلاف ہم ذرا ’وکھری‘ ٹائپ کی کرکٹ کھیلیں گے۔ روایتی حریف سے کھیلے گئے گذشتہ تمام میچز کے برعکس ہم ’مثبت‘ کرکٹ کھیلیں گے اور ایسے فیصلے دیکھنے کو ملیں گے کہ لوگ حیران رہ جائیں گے۔
پھر اس کے بعد میچ میں جو کچھ ہوا، لوگ صرف حیران ہی نہیں ہوئے بلکہ پریشان بھی ہو گئے۔
ایجبیسٹن کی اس بیٹنگ وکٹ پہ دو ریگولر سپنرز کو کھلانے کا مقصد کیا تھا؟ بالخصوص جب شعیب ملک اور محمد حفیظ جیسے بولنگ آپشنز ٹیم میں موجود ہوں تو دنیا کا کوئی بھی کپتان چاہے گا کہ وہ کم از کم چار سیمرز کھلائے۔ یہ جانتے ہوئے کہ بھارت سپن کو بہت اچھا کھیلتا ہے، پاکستان نے دو سپنرز کھلا ڈالے۔
محمد حفیظ کی بیٹنگ فارم اور ریکارڈ کو دیکھا جائے تو خالصتا بیٹنگ کی بنیاد پہ تو شاید ٹیم میں ان کی جگہ نہ بن پائے۔ پاکستان کے لیے انہیں کھلانے کا اصل فائدہ ہی ان کی سپن بولنگ ہے۔ لیکن پاکستان نے اس انتہائی اہم میچ میں انہیں بولنگ کی زحمت ہی نہیں دی۔ بلکہ ان کی بجائے عماد وسیم کو نیا گیند دے دیا گیا، شاید اس امید پہ کہ روہت شرما اور شیکھر دھاون بھی عماد کی آف بریک سے اتنے ہی متاثر ہوں گے جتنے ویسٹ انڈین اوپنرز ہوا کرتے ہیں۔
فیلڈنگ کے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو پاکستان نے کچھ بری پرفارمنس نہیں دی، پاکستان کی فیلڈنگ پہ اب یہ لازم ہو چکا ہے کہ انہیں فی میچ کم از کم دو کیچز تو ڈراپ کرنا ہی ہیں۔ لیکن فیلڈ پوزیشننگ اور پلاننگ کو دیکھا جائے تو مزید سوالات جنم لیتے ہیں۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
مثلا دائرے کے اندر جو فیلڈ لی جاتی ہے، اس کا مقصد سنگلز روک کر پریشر ڈالنا ہوتا ہے۔ پاکستان نے اٹیکنگ فیلڈ تو سیٹ کی لیکن اس اٹیکنگ فیلڈ نے بے تحاشا سنگلز لیک کئے۔
ٹیکنالوجی کے اس دور میں کہ جہاں بلے کی رفتار تک ناپی جا رہی ہے، پاکستانی تھنک ٹینک یہ سمجھنے سے بھی قاصر رہا کہ کوہلی کو کس لائن پہ اٹیک کرنا ہے اور یوراج کو کہاں پھنسانا ہے۔
گذشتہ روز کی گئی مکی آرتھر اور سرفراز کی مشترکہ پریس کانفرنس کا خلاصہ یہ تھا کہ چونکہ پاکستان آٹھویں نمبر کی ٹیم ہے، اس لئے پریشر انڈیا پہ ہو گا۔ ساتھ ہی جو بات زیادہ موضوع سخن رہی، وہ تھے بھارتی کپتان اور کوچ کے درمیان اختلافات اور ان کے عالمی ماحولیات پہ اثرات۔
مکی آرتھر کا فرمانا تھا کہ کپتان اور کوچ کے درمیان رشتہ شادی کے تعلق جیسا ہوتا ہے اور ٹیم کی پرفارمنس کا دارومدار اس رشتے کی مضبوطی پہ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا اور سرفراز کا رشتہ بہت مضبوط ہے۔ ہمارے حریفوں کا یہ رشتہ بہت کمزور ہے۔ اس لیے ہر لحاظ سے پریشر بھارت پہ ہے۔
جس وقت حسن علی آوٹ ہو کر پویلین کی جانب روانہ ہوئے تو ایک قطار میں کوہلی اور انیل کمبلے تھے جب کہ دوسری قطار میں سرفراز اور مکی آرتھر تھے۔
اہم بات یہ تھی کہ جس کوچ اور کپتان کا رشتہ بکھر چکا ہے، ان کی ٹیم جیت چکی تھی۔