’حالات کی مکمل بہتری تک کرکٹ کی واپسی کا انتظار کرنا ہوگا‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, تابندہ کوکب
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ سکیورٹی ادارے غیر ملکی ٹیموں کو مکمل سکیورٹی فراہم کرنے کے اہل ہیں لیکن دہشت گردی کے خاتمے اور اعتماد سازی تک شاید کرکٹ کی واپسی کے لیے مزید انتظار کرنا ہوگا۔
بنگلہ دیش کی جانب سے بھی پاکستان آ کر کرکٹ کھیلنے کے انکار کے بعد پی ایس ایس فائنل لاہور میں انعقاد کے بعد پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کی کی امیدیں پھر دم توڑنے لگی ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر عارف عباسی کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’کبھی بھی کسی بین الاقوامی ٹیم نے یہاں آنے کی حامی نہیں بھری اس لیے ایسا کوئی اعلان بھی نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس سے خوامخواہ امیدیں بڑھ جاتی ہے۔ ‘
ان کا کہنا تھا کہ پی سی بی کی جانب سے فیکا (فیڈریشن آف انٹرنیشنل کرکٹرز ایسوسی ایشن) کو تسلیم کرنے سے انکار کی بات بھی انتہائی غیر ذمہ دارانہ تھی۔
واضح رہے کہ فیڈریشن آف انٹرنیشنل کرکٹرز ایسوسی ایشن نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بین الاقوامی کرکٹرز کو متنبہ کیا ہے کہ وہ سپر لیگ کے فائنل کے لیے لاہور جانے سے گریز کریں کیونکہ پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال اب بھی بہتر نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سری لنکا میں خانہ جنگی کے دوران بھی عالمی سیریز جاری رہیں۔ ایک مرتبہ تو مہمان ٹیم کے قیام والے ہوٹل میں بھی دھماکہ ہوا۔ انگلینڈ میں دھماکے ہوئے اور 60 سے زیادہ لوگ مرے لیکن کسی نے نہیں کہا کہ ہم واپس جا رہے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوا کہ لوگوں کو وہاں کے سکیورٹی اداروں پر اعتماد ہے۔‘
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیف ایگریکٹو آفیسر عارف عباسی کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ہاں تو یہ حال ہے کہ باہر سے ایک آدمی آ جائے تو دس گاڑیاں آ جاتی ہیں ان کے استقبال کے لیے جن میں مسلح سکیورٹی اہلکار سوار ہوتے ہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہPCB
’اگر حالات کا جائزہ لینے کے لیے آنے والوں کو نارمل انداز میں دورہ کروائیں تو ہو سکتا ہے کہ ان کی رائے یہاں کے بارے میں مثبت ہو۔ اتنی زیادہ سکیورٹی سے یہ واضح پیغام جاتا ہے کہ انھیں خود اپنے اوپر یقین نہیں ہے تو ہمارے لیے تو حالات ٹھیک نہیں۔‘
تاہم پاکستان کرٹ بورڈ کے سابق چیئرمین خالد محمود اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے بقول دہشت گرد چونکہ کمزور جگہ پر وار کرتے ہیں اس لیے بین الاقوامی ٹیموں کا ڈر بجا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل کے فائنل کی طرح کی سکیورٹی میں میچز کا انعقاد ممکن ہے۔ ’لیکن کرکٹ کے لیے ماحول کا آزاد اور پرسکون ہونا ضروری ہے، کوئی پابندی نہ ہو، گھوم پھر سکیں، مہمان ٹیم کے کھلاڑی یہاں کا ماحول دیکھ سکیں، کھانا کھا سکیں۔ ایسا چونکہ یہاں ابھی ممکن نہیں ہے اس لیے میرے خیال میں تھوڑا انتظار کرنا ہی بہتر ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہEPA
بین الاقوامی ٹیموں کو پاکستان آنے پر قائل کرنے کے بارے میں عارف عباسی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ وہ ایک آدمی کا انتخاب کریں تاکہ وہ آئی سی سی اور انفرادی طور لوگوں سے بات کرے۔ اور یہ ایسا شخص کو جسے کسی تعارف کی ضرورت نہ ہو۔‘
انھوں نے زور دیا کہ کرکٹ بورڈ کی آزادانہ حیثیت کو یقینی بنانا ضروری ہے کیونکہ جب تک اس پر سیاسی اثر زائل نہیں ہوگا حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔
اسی بارے میں سابق چیئرمین خالد محمود کا کہنا تھا کہ سابق کرکٹرز عمران خان اور وسیم اکرم جیسے لوگ بین الاقوامی برادری کو یہاں کرکٹ کھیلنے کے لیے قائل کر سکتے ہیں۔ تاہم انھوں نے کہا کہ ’کرکٹ بورڈ کے موجودہ اہلکاروں میں ایسی اہلیت مجھے نظر نہیں آتی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کرکٹ بورڈ سے سیاسی اثر کے خاتمے تک کسی ایسی شخصیت کے انتخاب بھی ممکن نہیں۔
’حال ہی میں 1992 کے ورلڈ کپ کی جیت کی 25ویں سالگرہ کے موقعے پر اس کامیابی کا ذکر تک نہیں کیا گیا حالانکہ یہ کرکٹ کے فروغ کے لیے ایک اچھی چیز ہو سکتی تھی۔ لیکن محض ایک سیاسی شخصیت (عمران خان) کی وجہ سے اس کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ کیونکہ اس سے عمران خان کی تعریف ہوتی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس ادارے کی بہتری کے حوالے سے مایوس بھی نہیں۔
’اگر کوئی میرٹ پر صحیح فرد کرکٹ بورڈ کو سنبھالنے کے لیے آ جائے، بورڈ کے آئین میں درج ہو کہ یہ ادارہ خود مختار ہو اور کرکٹ بورڈ چلانے والا سیاسی دباؤ سے بے پروا اور کرکٹ سے لگاؤ رکھنے والا ہو تو ایسا ممکن بھی ہے۔‘
خالد محمود کا کہنا تھا کہ وہ مستقبل میں کرکٹ بورڈ کی بہتری سے مایوس نہیں لیکن سکیورٹی کی صورتحال کو بہتر کرنا بہت ضروری ہے اور مکمل بہتری تک ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔










