حجاب والی ایموجیز کیوں؟

آن لائن ڈسکشن فورم ریڈٹ کے شریک بانی الیکسس اوہینیم کو یہ ایموجیز کافی پسند آئیں ہیں

،تصویر کا ذریعہAphelandra Messer

،تصویر کا کیپشنآن لائن ڈسکشن فورم ریڈٹ کے شریک بانی الیکسس اوہینیم کو یہ ایموجیز کافی پسند آئیں ہیں

جرمنی میں رہنے والی ایک 15 سالہ سعودی نژاد لڑکی نے نقاب والی ایموجيز (الیکٹرانک مواصلات میں استعمال ہونے والی تاثراتی تصاویر) بنائی ہے اور انھوں نے اسے منظوری کے لیے يونيكوڈ کنسورشیم کے پاس بھیجا ہے۔

آن لائن ڈسکشن فورم ’ریڈٹ‘ کے شریک بانی الیکسس اوہینیم کو یہ ایموجیز کافی پسند آئیں ہیں۔ اگر ان ایموجيز کو منظور کر لیا جاتا ہے تو سنہ 2017 سے یہ استعمال میں آ جائیں گی۔

خیال رہے کہ دنیا میں 50 کروڑ افراد کسی نہ کسی قسم کے جحاب کا استعمال کرتے ہیں تاہم نقاب اور مختلف قسم کے حجاب والی ایموجیز کی تجویز ایسے وقت میں آئی ہے جب یورپ اور دنیا کے دوسرے حصوں میں حجاب اور نقاب پر بحث کا سلسلہ جاری ہے۔

کہیں اس پر پابندی لگائی جاتی ہے تو کہیں پابندی ہٹائی جاتی ہے۔

اس کے تحت یورپ میں مذہبی آزادی، خواتین کے لیے مساوات، سیکولر روایت اور دہشت گردی کے خوف جیسے مسائل پر بھی بحث جاری ہے۔

ایموجیزمختلف قسم کے جذبات اور حالات کا تصویری اظہار ہیں اور ان کا سوشل میڈیا میں استعمال بڑھ رہا ہے

،تصویر کا ذریعہBitmoji

،تصویر کا کیپشنایموجیزمختلف قسم کے جذبات اور حالات کا تصویری اظہار ہیں اور ان کا سوشل میڈیا میں استعمال بڑھ رہا ہے

ایسے میں 15 سالہ رؤف الحمیدی نے ایموجیز پر ایک مضمون پڑھنے کے بعد یونی کوڈ کو اپنی تخلیق کردہ ایموجیز کے متعلق ایک خط ارسال کیا ہے۔ ابھی تک انھوں نے اس کے لیے باضابط درخواست نہیں کی ہے لیکن انھیں امید ہے کہ وہ نومبر تک اس کے لیے باضابطہ درخواست کریں گی۔

اپنے پہلے ڈرافٹ میں الحمیدی نے لکھا: ’ڈیجیٹلايزیشن کے دور میں تصاویر مواصلات کا اہم حصہ ہیں۔ دنیا میں بہت سے اختلافات کے باوجود ہمیں سب کی نمائندگی کرنا چاہیے۔ ہم یہاں نقاب کو شامل کرنے پر تبادلۂ خیال کر رہے ہیں۔‘

منگل کو اس مسئلے پر آن لائن ’ریڈٹ لائیو‘ بھی کیا جس میں صارفین نے الحمیدی سے ان کی ایموجیز کے متعلق نظریے کی بابت سوالات کیے۔

بعض لوگوں نے اس کے شامل کیے جانے کی حمایت کی تو بعضے دیگر نے حجاب کے وجود پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے خواتین کو ’تاریکی میں رکھنے والا لباس‘ قرار دیا۔

ہمارے نمائندے کے ایک سوال کے جواب میں الحمیدی نے کہا کہ ’یہ شناخت کا مسئلہ ہے۔ کروڑوں لوگوں کی نمائندگی کا معاملہ ہے۔ آپ خود کو کہیں موجود دیکھ کر کیسا محسوس کرتے ہیں یہ اس کے لیے ہے۔‘