خلابازوں کے لیے تھری ڈی پرنٹر بھیجنے کا منصوبہ

امریکی خلائی ادارے ناسا نے آئندہ برس خلا میں ایک ’تھری ڈی‘ پرنٹر بھیجنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ خلاباز وہیں پر اوزار اور پرزے تیار کر سکیں۔
یہ پہلا موقع ہوگا کہ خلا میں تھری ڈی پرنٹر استعمال ہوگا اور اس سے مستقبل میں خلائی مشن پر آنے والے اخراجات میں کمی آ سکےگی۔
اس تجربے کی کامیابی کے لیے پرنٹر کو خلائی راکٹ داغے جانے کے جھٹکے برداشت کرنا ہوں گے اور خلائی ماحول میں کامیابی سے کام کرنا ہوگا جہاں کششِ ثقل موجود نہیں۔
ناسا نے عام مائیکروویو کے حجم کے برابر اس پرنٹر کی تیاری کے لیے ٹیکنالوجی کے میدان میں نووارد کمپنی ’میڈ ان سپیس‘ کا انتخاب کیا ہے۔
کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ایرون کیمر کا کہنا ہے کہ ’تصور کریں کہ ایک خلاباز کو عالمی خلائی مرکز میں ایسی مرمت کا کام کرنا ہے جس پر موت و زندگی کا انحصار ہے۔ بجائے یہ امید کرنے کے کہ اس کے لیے درکار پرزے اور اوزار مرکز میں موجود ہوں گے کیا ہو کہ ضرورت پڑنے پر انہیں تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے تیار کر لیا جائے۔‘
1970 میں اپولو 13 کے خلابازوں کو ایک کاربن ڈائی آکسائیڈ فلٹر تیار کرنا پڑا تھا جس کے لیے پلاسٹک کے ایک تھیلے، ایک ڈھکن اور ٹیپ کا استعمال کیا گیا تھا۔

اگر اس وقت تھری ڈی پرنٹر ہوتا تو ممکنہ طور پر ان کی یہ مشکل چند منٹوں میں آسان ہو جاتی۔
ناسا کے تحقیقی مرکز کے ڈائریکٹر آف انجینیئرنگ ڈیو کورسمیئر کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا چاہتے ہیں تو آپ کو خلا میں ڈیزائن کرنے اور اسے عملی شکل دینے کے قابل ہونا پڑے گا اور یہیں خلا میں تھری ڈی پرنٹر کا کام شروع ہوتا ہے۔‘
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ناسا تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے چھوٹے سیارچے تیار کرنے کے بھی تجربات کر رہا ہے جنہیں عالمی خلائی سٹیشن سے چھوڑا جا سکے اور وہ پھر زمین پر ڈیٹا بھیجیں۔
تھری ڈی پرنٹنگ میں عموماً پولیمر کی تہوں کی مدد سے کسی بھی چیز کو پرنٹ یا تیار کیا جاتا ہے۔ تاہم اب لیزر کی مدد سے پگھلائی گئی ٹائٹینیئم اور نکل اور کرومیم کے سفوف کو بھی زیادہ مضبوط اشیاء کی تیاری کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
رواں برس اگست میں ناسا نے کامیابی سے تھری ڈی پرنٹر سے خلائی راکٹ کے پرزے تیار کیے تھے۔ اس مہم کا مقصد خلائی پروگراموں پر آنے والے اخراجات میں کمی کرنا ہے۔







