کورونا وائرس: کیا آپ کے ملک میں ویکسین پہنچ گئی ہے؟

Illustration of a vaccine and a map

جب کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی تقسیم کی بات آتی ہے تو پھر زیادہ تر لوگ ایک سوال ہی پوچھتے ہیں کہ میری باری کب آئے گی؟

آخر کار دنیا کے لیے کورونا وائرس کے خلاف ویکسین زندگی اور موت کا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔

بہت محدود تعداد میں کچھ ممالک نے اس حوالے سے بہت واضح انداز سے اپنے اہداف مقرر کیے ہیں مگر دنیا کے بیشتر ممالک میں ابھی یہ صورتحال زیادہ واضح نہیں۔

اس میں ایک پیچیدہ سائنسی عمل کے علاوہ ملٹی نیشنل کارپوریشنز، کئی حکومتوں کے متضاد وعدے اور بیوروکریسی کے طریقے اور قواعد آڑے آ جاتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ دنیا بھر میں یہ ویکسین کب اور کیسے ملے گی اس کا کوئی سیدھا جواب نہیں۔

دیکھیے اس وقت دنیا میں ویکسین لگانے کا عمل کس طرح آگے بڑھ رہا ہے۔

ویکسین کی عالمی فراہمی

ٹیبل سکرول کریں
دنیا
61
12,120,524,547
چین
87
3,403,643,000
انڈیا
66
1,978,918,170
امریکہ
67
596,233,489
برازیل
79
456,903,089
انڈونیشیا
61
417,522,347
جاپان
81
285,756,540
بنگلہ دیش
72
278,785,812
پاکستان
57
273,365,003
ویتنام
83
233,534,502
میکسیکو
61
209,179,257
جرمنی
76
182,926,984
روس
51
168,992,435
فلپائن
64
153,852,751
ایران
68
149,957,751
برطانیہ
73
149,397,250
ترکی
62
147,839,557
فرانس
78
146,197,822
تھائی لینڈ
76
139,099,244
اٹلی
79
138,319,018
جنوبی کوریا
87
126,015,059
ارجنٹائن
82
106,075,760
سپین
87
95,153,556
مصر
36
91,447,330
کینیڈا
83
86,256,122
کولمبیا
71
85,767,160
پیرو
83
77,892,776
ملائیشیا
83
71,272,417
سعودی عرب
71
66,700,629
میانمار
49
62,259,560
چلی
92
59,605,701
تائیوان
82
58,215,158
آسٹریلیا
84
57,927,802
ازبکستان
46
55,782,994
مراکش
63
54,846,507
پولینڈ
60
54,605,119
نائجیریا
10
50,619,238
ایتھوپیا
32
49,687,694
نیپال
69
46,888,075
کمبوڈیا
85
40,956,960
سری لنکا
68
39,586,599
کیوبا
88
38,725,766
وینزویلا
50
37,860,994
جنوبی افریقہ
32
36,861,626
ایکواڈور
78
35,827,364
نیدرلینڈز
70
33,326,378
یوکرین
35
31,668,577
موزمبیق
44
31,616,078
بیلجیئم
79
25,672,563
متحدہ عرب امارات
98
24,922,054
پرتگال
87
24,616,852
روانڈا
65
22,715,578
سویڈن
75
22,674,504
یوگینڈا
24
21,756,456
یونان
74
21,111,318
قزاقستان
49
20,918,681
انگولا
21
20,397,115
گھانا
23
18,643,437
عراق
18
18,636,865
کینیا
17
18,535,975
آسٹریا
73
18,418,001
اسرائیل
66
18,190,799
گوئٹے مالا
35
17,957,760
ہانگ کانگ
86
17,731,631
جمہوریہ چیک
64
17,676,269
رومینیا
42
16,827,486
ہنگری
64
16,530,488
جمہوریہ ڈومینیکا
55
15,784,815
سوئٹزرلینڈ
69
15,759,752
الجزائر
15
15,205,854
ہونڈوراس
53
14,444,316
سنگاپور
92
14,225,122
بولیویا
51
13,892,966
تاجکستان
52
13,782,905
آذربائیجان
47
13,772,531
ڈنمارک
82
13,227,724
بیلارس
67
13,206,203
تیونس
53
13,192,714
آئیوری کوسٹ
20
12,753,769
فن لینڈ
78
12,168,388
زمبابوے
31
12,006,503
نکاراگوا
82
11,441,278
ناروے
74
11,413,904
نیوزی لینڈ
80
11,165,408
کوسٹا ریکا
81
11,017,624
آئرلینڈ
81
10,984,032
ایل سیلواڈور
66
10,958,940
عوامی جمہوریہ لاؤ
69
10,894,482
اردن
44
10,007,983
پیراگوئے
48
8,952,310
تنزانیا
7
8,837,371
یوروگوئے
83
8,682,129
سربیا
48
8,534,688
پاناما
71
8,366,229
سوڈان
10
8,179,010
کویت
77
8,120,613
زیمبیا
24
7,199,179
ترکمانستان
48
7,140,000
سلواکیا
51
7,076,057
اومان
58
7,068,002
قطر
90
6,981,756
افغانستان
13
6,445,359
گنی
20
6,329,141
لبنان
35
5,673,326
منگولیا
65
5,492,919
کروشیا
55
5,258,768
لتھوینیا
70
4,489,177
بلغاریہ
30
4,413,874
شام
10
4,232,490
فلسطینی علاقے
34
3,734,270
بینن
22
3,681,560
لیبیا
17
3,579,762
نائجر
10
3,530,154
جمہوریہ کانگو
2
3,514,480
سیرالیون
23
3,493,386
بحرین
70
3,455,214
ٹوگو
18
3,290,821
کرغزستان
20
3,154,348
صومالیہ
10
3,143,630
سلوینیا
59
2,996,484
برکینا فاسو
7
2,947,625
البانیہ
43
2,906,126
جورجیا
32
2,902,085
لیٹویا
70
2,893,861
موریطانیہ
28
2,872,677
بوٹسوانا
63
2,730,607
لائبیریا
41
2,716,330
موریشس
74
2,559,789
سنیگال
6
2,523,856
مالی
6
2,406,986
مڈغاسکر
4
2,369,775
چاڈ
12
2,356,138
ملاوی
8
2,166,402
مالڈووا
26
2,165,600
آرمینیا
33
2,150,112
اسٹونیا
64
1,993,944
بوسنیا
26
1,924,950
بھوٹان
86
1,910,077
شمالی مقدونیہ
40
1,850,145
کیمیرون
4
1,838,907
کوسوو
46
1,830,809
قبرص
72
1,788,761
تیمور لیست
52
1,638,158
فجی
70
1,609,748
ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو
51
1,574,574
جمیکا
24
1,459,394
ماکاؤ
89
1,441,062
مالٹا
91
1,317,628
لکزمبرگ
73
1,304,777
جنوبی سوڈان
10
1,226,772
جمہوریہ وسطی افریقہ
22
1,217,399
برونائی دارالسلام
97
1,173,118
گیانا
58
1,011,150
مالدیپ
71
945,036
لیسوتھو
34
933,825
یمن
1
864,544
کانگو
12
831,318
نمیبیا
16
825,518
گیمبیا
14
812,811
آئس لینڈ
79
805,469
کیپ ورد
55
773,810
مونٹی نیگرو
45
675,285
کوموروس
34
642,320
پاپوا نیو گنی
3
615,156
گنی بساؤ
17
572,954
گیبون
11
567,575
ایسواٹینی
29
535,393
سورینیم
40
505,699
سامووا
99
494,684
بلیز
53
489,508
استوائی گنی
14
484,554
سولومن جزائر
25
463,637
ہیٹی
1
342,724
بہاماس
40
340,866
بارباڈوس
53
316,212
وینواتا
40
309,433
ٹونگا
91
242,634
جرسی
80
236,026
جیبوتی
16
222,387
سیشیلز
82
221,597
ساؤٹوم و پرنسیپ
44
218,850
آئل آف مین
79
189,994
گرنزی
81
157,161
انڈورا
69
153,383
کیریباتی
50
147,497
جزائرکیمن
90
145,906
برمودا
77
131,612
اینٹیگوا و باربوڈا
63
126,122
سینٹ لوشیا
29
121,513
جبرالٹر
123
119,855
فارو جزائر
83
103,894
گریناڈا
34
89,147
گرین لینڈ
68
79,745
سینٹ ونسینٹ اینڈ دی گریناڈائنز
28
71,501
لیختینستائن
69
70,780
ترک اینڈ کاکوس جزائر
76
69,803
سان ماریو
69
69,338
ڈومنیکا
42
66,992
موناکو
65
65,140
سینٹ کِٹس و نیوس
49
60,467
برطانوی ورجن جزائر
59
41,198
جزائر کک
84
39,780
انگیلا
67
23,926
ناورو
79
22,976
برونڈی
0.12
17,139
ٹووالو
52
12,528
سینٹ ہیلینا
58
7,892
مونٹسیرات
38
4,422
جزائر فاک لینڈ
50
4,407
نیووے
88
4,161
ٹوکیلو
71
1,936
پٹکیرن جزائر
100
94
اریٹریا
0
0
بحرہ ہند میں برطانوی علاقہ
0
0
جنوبی جورجیا اور سینڈوچ جزائر
0
0
شمالی کوریا
0
0
ویٹیکن
0
0

مکمل انٹرایکٹو دیکھنے کے لیے اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کریں

دنیا بھر میں ویکسین کی کتنی خوراکیں دی جا چکی ہیں؟

اب تک دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک میں مختلف ویکسینز کی 30 کروڑ سے زیادہ خوراکیں دی جا چکی ہیں۔ یہ اتنے بڑے پیمانے پر دنیا میں ویکسینیشن کا اب تک کا پہلا پروگرام ہے۔

سب سے پہلی ویکسینز چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس کے اولین کیسز سامنے آنے کے بعد ایک سال سے بھی کم عرصے کے اندر دی گئیں مگر ویکسین کی عالمی سطح پر فراہمی ناہموار رہی ہے۔

کچھ ممالک نے بڑی تعداد میں ویکسین کی خوراکیں حاصل کر کے اپنی آبادی کے ایک بڑے حصے کو فراہم کر دی ہیں مگر کئی ممالک اب بھی ویکسینز کی پہلی کھیپ پہنچنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

ویکسینیشن کے ابتدائی مرحلوں میں زیادہ تر ممالک مندرجہ ذیل گروہوں کو ترجیحی بنیادوں پر ویکسین فراہم کر رہے ہیں:

  • ساٹھ سے زیادہ عمر کے افراد
  • طبی عملے کے ارکان
  • طبی طور پر خطرے کی زد میں موجود افراد

اسرائیل اور برطانیہ جیسے ممالک میں اس بات کے حوصلہ افزا اشارے مل رہے ہیں کہ ویکسینز کی وجہ سے ہسپتالوں میں داخلے، اموات اور ایک شخص سے دوسرے میں وائرس کے پھیلاؤ کے واقعات میں کمی آئی ہے۔

مگر جہاں تقریباً تمام یورپ اور امریکی ممالک نے ویکسینیشن مہمات کا آغاز کر دیا ہے وہاں اب تک چند ہی افریقی ممالک میں عوام کو ویکسین کی فراہمی شروع ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ (ای آئی یو) کے گلوبل فارکاسٹنگ ڈائریکٹر اگاتھے دیمارائس نے اس حوالے سے بہت جامع تحقیق کی ہے۔

اس بات کو جاننے کے لیے کہ مختلف ممالک میں لوگوں تک یہ ویکسین کس طرح پہنچے گی ای آئی یو نے اس وقت دنیا میں اس ویکسین کی پیداواری صلاحیت کو پرکھا ہے اور اس کے ساتھ طبی انفراسٹرکچر کا جائزہ بھی لیا ہے۔

اسی طرح کسی ملک کی آبادی کے حجم کو بھی دیکھا گیا کہ وہ کیسے لوگوں تک یہ ویکسین پہنچا سکیں گے۔

اس مطالعے کے نتائج میں امیر اور غریب کے درمیان متوقع فرق واضح طور پر دیکھنے میں آیا ہے۔

اس وقت برطانیہ اور امریکہ اس ویکسین کو صحیح معنوں میں عوام تک پہنچا رہے ہیں کیونکہ وہ ویکسین کی تیاری میں بڑی سرمایہ کاری کی سکت رکھتے ہیں اور اس وجہ سے وہ ویکسین حاصل کرنے کے لیے صف اول میں ہیں۔

اسی طرح کینیڈا اور یورپی یونین میں شامل ممالک برطانیہ اور امریکہ سے ویکسین کے معاملے میں کچھ پیچھے ہیں۔

کئی کم آمدنی والے ممالک نے ابھی تک ویکسین لگانے کا عمل شروع ہی نہیں کیا ہے مگر کچھ ممالک نے ویکسین سے متعلق سرپرائز دیا ہے۔

ویکسین کی عالمی فراہمی

گذشتہ سال کے اختتام پر اس وقت کینیڈا کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے اپنی آبادی کے حجم سے پانچ گنا زیادہ ویکسین کے لیے آرڈر بک کرایا تاہم یہ لگ رہا ہے کہ کینیڈا نے اپنے لیے ویکسین کی ترجیحی فراہمی کا خیال نہیں رکھا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ کینیڈا نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ویکسین کی برآمد پر ممکنہ پابندی کے خدشے سے یورپی فیکٹریوں میں سرمایہ کاری کی ہے تاہم یہ کینیڈا کے لیے بہتر فیصلہ ثابت نہیں ہوا۔

ابھی یورپی ممالک کی فیکٹریاں ویکسین کی سپلائی پوری کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں امریکہ کے بجائے یورپی یونین میں شامل ممالک اس ویکسین کی برآمد پر پابندی عائد کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔

اٹلی نے پہلے ہی آسٹریلیا کو ویکسین کی برآمد روک دی ہے۔

اگاتھے دمارائس کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں جب تک یورپی ممالک کو بڑی تعداد میں ویکسین دستیاب نہیں ہو جاتی تو اس وقت تک کینیڈا کو ویکسین بھیجنا ممکن نہیں ہو گا۔

تاہم کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جو امیدوں سے بڑھ کر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

اپنی عوام تک ویکسین کی فراہمی میں سربیا دنیا میں آٹھویں نمبر پر تھا، جو کہ کسی بھی یورپی ممالک سے آگے تھا۔

اگرچہ سربیا کی عوام تک ویکسین کی فراہمی کی کامیابی کسی حد متاثر بھی ہوئی مگر سربیا ویکسین ڈپلومیسی سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔۔ کیونکہ چین اور روس کے درمیان مشرقی یورپ میں اپنا اثرو رسوخ برقرار رکھنے کی ایک لڑائی جاری ہے۔

سربیا ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں روس کی تیار کردہ ویکسین سپونتک فائیو، چین کی ویکسین سائنو فارم، امریکہ اور جرمنی میں تیار کی گئی فائزر کی ویکسین، اور برطانیہ میں تیار کی گئی آکسفورڈ ایسٹرازینیکا ویکسین دستیاب ہیں۔

بظاہر سربیا میں زیادہ تر لوگوں کو سائنو فارم ہی لگائی گئی ہے۔

چین کا اس ملک میں اثر و رسوخ کافی عرصے تک برقرار رہنے کا امکان ہے۔ اگر کوئی ملک پہلی اور دوسری بار چین کی سائنو فارم ویکسین استعمال کرے گا تو پھر مسقبل میں بھی اگر اُنھیں ضرورت ہو گی تو پھر وہ چین سے ہی مزید ایسے نسخے حاصل کرے گا۔

متحدہ عرب امارات بھی زیادہ تر چین کی سائنو فارم ویکسین پر ہی انحصار کر رہا ہے۔ اس وقت 80 فیصد تک اس ویکسین کی خوراکیں لوگوں کو لگائی جا رہی ہیں۔ متحدہ عرب امارات اس وقت ملک میں سائنو فارم کی فیکٹری بھی قائم کر رہا ہے۔

نقشہ

اگاتھے دمارائس کا کہنا ہے کہ چین پیداواری صلاحیت کے ساتھ آ رہا ہے، افرادی قوت کو تربیت دے رہا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اب چین کا اثر طویل عرصے کے لیے رہے گا اور مستقبل میں بھی چین کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو ایسے ممالک انکار نہیں کر سکیں گے۔

محض ویکسین سپر پاور ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس ملک کی عوام کو بھی پہلے ویکسین لگے گی۔

ای آئی یو کی تحقیق کے مطابق چین اور انڈیا میں دنیا کے دو پروڈکشن پاور ہاؤسز میں سب لوگوں کو 2022 تک ویکسین نہیں دی جا سکے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی آبادی زیادہ ہے اور وہاں ہیلتھ ورکرز کی کمی ہے۔

انڈیا میں ویکیسن کی تیاری کا سہرا صرف ایک شخص ادار پونے والا کو جاتا ہے، جس کی کمپنی سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا دنیا میں ویکسین بنانے والی بڑی کمپنی ہے۔ مگر گذشتہ سال کے وسط میں ان کے خاندان کو لگا کہ وہ اپنا دماغی توازن کھو گئے ہیں۔ وہ اپنی ہی رقم سے کروڑوں ڈالر ویکسین کے لیے خرچ کر رہے تھے جبکہ انھیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ کارآمد بھی ہو گی یا نہیں۔

جنوری میں آکسفورڈ کی تیار کردہ ایسٹرا زینیکا ویکسین انڈین حکومت کے حوالے کی گئی۔ اب ادار پونے والا ایک دن میں 2.4 ملین نسخے تیار کر رہا ہے۔

ڈیٹا

ادار پونے والا کی کمپنی انڈیا کو ویکیسن فراہم کرنے والی دو کمپنیوں میں سے ایک ہے اور یہ کمپنی برازیل، مراکو، بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ کو بھی ویکسین فراہم کر رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’لگتا تھا کہ اب تمام دباؤ اور پاگل پن اب ختم ہو جائے گا کیونکہ ہم نے پروڈکٹ (ویکسین) تیار کر لی ہے تاہم ابھی بھی حقیقی چیلنج ہر کسی کو خوش رکھنا ہے۔‘ ان کے خیال میں دنیا میں ویکسین تیار کرنے والی دیگر کمپنیاں بھی ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنائیں گی۔ تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ پہلے اور شاید اس کے بعد کے چار ماہ بعد بھی اس سال ہم ویکیسین کی فراہمی میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں دیکھ پائیں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ ویکسین کی پیداوار راتوں رات بڑھائی نہیں جا سکتی۔ ادار پونے والا کے مطابق یہ ایک وقت طلب عمل ہے۔ ’اب لوگ یہ سوچتے ہیں کہ سیرم انسٹیٹیوٹ نے جادوئی نسخہ تیار کر لیا ہے۔ ان کے مطابق ہم جو کرتے ہیں وہ اچھا ہے مگر یہ جادوئی نہیں ہے۔

ادار پونے والا کو اب ایک فائدہ حاصل ہے کیونکہ اُن کی کمپنی نے گذشتہ برس مارچ میں ویکسین تیاری سے متعلق کام شروع کیا تھا اور اگست میں کیمیکلز کا سٹاک اور شیشیاں جمع کرنی شروع کر دی تھیں۔

ویکسین تیاری کے مرحلے میں جتنی تعداد میں ویکسین تیار ہوتی ہے ان کا انحصار مختلف مراحل پر ہوتا ہے اور اس دوران کئی مراحل ایسے ہیں جن میں چیزیں غلط بھی ہو سکتی ہیں۔

اگاتھے دمارائس کے مطابق اس میں اتنا ہی آرٹ ہے جتنی کہ سائنس ہے۔

ان ویکسین مینوفیکچررز کے لیے جو ابھی ویکسین کی تیاری کا عمل شروع کرنے جا رہے ہیں انھیں ویکسین کی تیاری میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ اور یہی معاملہ کسی بوسٹر کی تیاری کا بھی ہے جو اس وائرس کی کسی نئی قسم سے نمٹنے کے لیے درکار ہو گا۔

A Covid-19 vaccine being administered in Montreal, Canada.

،تصویر کا ذریعہRex Features

ادرا پونے والا کا کہنا ہے کہ انڈیا کو سب سے پہلے ویکسین کی فراہمی اُن کا پہلا عزم ہے اور پھر اس کے بعد کوویکس کے ذریعے افریقی ممالک کو اس ویکسین کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔

کوویکس عالمی ادارہ صحت، گلوبل ویکسین الائنس (گاوی)، اور ’دی کولیشن فار ایپی ڈیمک پری پیئرڈنس انیشیٹیوز‘ (سی ای پی آئی) کا ایک اقدام ہے۔ اس پروگرام کا مقصد دنیا کے ہر ملک کے لیے قابل برداشت نرخوں پر ویکسین کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔

اس کا وعدہ ہے کہ یہ اس سکیم کے تحت اہل قرار پانے والے ملک کی 20 فیصد تک آبادی کو لگانے کے لیے ویکسین فراہم کرے گا۔

ایسے ممالک جو یہ ویکسین نہیں خرید سکتے انھیں خصوصی فنڈز سے یہ ویکسین مفت فراہم کی جائے گی۔ دیگر ممالک اس ویکسین کے لیے ادائیگی کریں گے مگر اس پروگرام کے تحت وہ ویکسین کی قیمت پر بہتر بھاؤ تاؤ کر سکتے ہیں۔

کوویکس کا ارادہ ہے کہ سال کے اختتام تک عالمی طور پر دو ارب خوراکیں فراہم کی جائیں۔

گھانا 24 فروری کو کوویکس کے ذریعے ویکسین حاصل کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔

کوویکس پلان کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ بہت سے ممالک اپنے طور پر ویکسین کے لیے اس پروگرام سے ہٹ کر ڈیل کر رہے ہیں۔

ادار پونے والا کا کہنا ہے کہ تقریباً ہر افریقی رہنما ان کے ساتھ ویکسین فراہمی کے لیے آزادانہ طور پر رابطے میں ہے۔ گذشتہ ہفتے یوگنڈا نے اعلان کیا ہے کہ اس نے سیرم انسٹی ٹیوٹ سے فی خوراک سات ڈالر کے حساب سے 18 ملین خوراکیں خریدی ہیں۔ کوویکس کے تحت 4 ڈالر فی خوراک کے حساب سے اس ویکسین کی فراہمی سے یہ ریٹ کہیں زیادہ ہے۔

سیرم انسٹیٹیوٹ کا کہنا ہے کہ وہ یوگنڈا سے مذاکرات کر رہے ہیں مگر انڈین کمپنی نے یوگنڈا سے طے پانے والی کسی ڈیل سے انکار کیا ہے۔

ادار پونے والا عالمی ادارہ صحت سے ابتدائی منظوری حاصل کرنے کے بعد کوویکس کو اے زیڈ 200 ملین نسخے فراہم کریں گے۔ ادرا پونے والا نے کوویکس کو 900 ملین نسخے دینے کا وعدہ کیا ہے تاہم انھوں نے اس حوالے سے یہ نہیں بتایا کہ وہ کب تک یہ دے دیں گے۔ اگرچہ وہ اس پروگرام سے متعلق خاصے پرعزم تھے تاہم وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس میں انھیں مسائل کا سامنا ہے۔

ان کے مطابق کوویکس بہت ساری ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں سے ڈیل کر رہی ہے۔ ان میں سے ہر ویکسین کی علیحدہ قیمتیں اور فراہمی کی مختلف تاریخیں ہیں۔

اگاتھے دمارائس اور ای آئی یو کوویکس کے پروگرام سے متعلق زیادہ پر امید نہیں ہیں۔ ان کے مطابق اگر یہ کامیاب بھی ہو گیا تو اس پروگرام کے تحت دنیا کی 20 سے 27 فیصد آبادی تک ہی ویکسین فراہم کی جا سکے گی۔ دمارائس کے مطابق یہ پروگرام محدود پیمانے پر فرق ڈالے گا مگر یہ کوئی گیم چینجر نہیں ہے۔

اگاتھے دمارائس کی اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے لیے پیش گوئی کے مطابق 2023 تک کچھ ممالک میں ویکسین سرے سے یا مکمل طور پر نہیں لگائی جا سکے گی۔ تمام ممالک کے لیے ویکسین لگانا ترجیح نہ ہو خاص طور پر ایسے ممالک جہاں کی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہو اور وہاں بیمار لوگوں کی تعداد زیادہ نہ ہو۔

اس منظرنامے کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ جب تک وائرس کہیں پنپ سکتا ہے تو پھر یہ کہیں بھی جا سکتا ہے اور اپنی ہییت بدل سکتا ہے۔ ویکسین کے خلاف مزاحمت کرنے والے وائرس کی قسم پیدا ہو سکتی ہے۔

یہ کوئی مکمل طور بری خبر بھی نہیں۔ اس وقت تیزی سے ویکسین تیار کی جا رہی ہے مگر اس ٹاسک کا حجم بہت بڑا ہے جہاں 7.7 ارب لوگوں کو یہ ویکسین دینی ہے۔ اس سے قبل ایسی کوئی کوشش کبھی نہیں ہوئی۔

اگاتھے دمارائس کا کہنا ہے کہ حکومتیں اپنی عوام سے دیانتدار رہیں کہ کیا کچھ ممکن ہے۔ اگرچہ یہ کسی حکومت کے لیے کہنا بہت مشکل ہے کہ نہیں ہم کئی برسوں تک ویکسین لگانے کا ہدف حاصل نہیں کر سکیں گے۔ کوئی بھی یہ نہیں کہنا چاہتا۔

ڈیٹا جرنلزم: بیکے ڈیل اور ناسوس سٹیلیانو