کورونا وائرس: کووڈ ویکسین سے متعلق سوشل میڈیا پر دعووں کی حقیقت کیا ہے؟

کورونا وائرس، کووڈ، ویکسین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

    • مصنف, جیک گوڈ مین اور فلورا کارمائیکل
    • عہدہ, بی بی سی ریئلٹی چیک

برطانیہ اور امریکہ میں کووڈ 19 ویکسینز کے استعمال کے آغاز کے بعد سے متعدد جھوٹے دعوے سامنے آنے لگے ہیں۔

ہم نے ان میں سے سب سے زیادہ پھیلائے جانے والے دعووں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔

کورونا وائرس، کووڈ، ویکسین
،تصویر کا کیپشنان تصویروں کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ سوئی کے بغیر والے ٹیکوں کے ذریعے عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے

'غائب ہوتی' سوئیاں

بی بی سی نیوز کی جانب سے جاری کردہ ایسی فوٹیج کو سوشل میڈیا پر ویکسین کے جعلی ہونے کے ثبوت کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ پریس کے سامنے ویکسین لگانے کا عمل دراصل جھوٹی کارروائی ہے۔

جو فوٹیج شیئر کی جا رہی ہے وہ دراصل اس ہفتے بی بی سی ٹی وی پر نشر ہونے والی رپورٹ میں سے لیا گیا ایک کلپ ہے اور اسے ویکسین کے خلاف مہم چلانے والے شیئر کر رہے ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ حکام کی جانب سے ایسے جعلی ٹیکے استعمال کیے جا رہے ہیں جن کی ’سوئیاں غائب ہو جاتی ہیں‘ اور ان کے ذریعے ایک ایسی ویکسین کو ہوا دی جا رہی ہے جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔

X پوسٹ نظرانداز کریں
X کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں

X پوسٹ کا اختتام

اس ویڈیو کو ایک ٹویٹ کے بعد 20 ہزار مرتبہ ری ٹویٹ اور لائیک کیا گیا اور اسے تقریباً پانچ لاکھ افراد نے دیکھا۔

اس کے علاوہ اس ویڈیو کو شیئر کرنے والے ایک اکاؤنٹ کو معطل کر دیا گیا ہے۔ ان پوسٹس کی دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں استعمال ہونے والی فوٹیج حقیقی ہے جس میں طبی کارکنان کو ایک 'محفوظ سرنج' کا استعمال کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس فوٹیج میں 'سوئی' اس ڈیوائس میں واپس چلی جاتی ہے۔

گذشتہ دہائی کے دوران سیفٹی سرنج کا استعمال خاصا عام ہو چکا ہے کیونکہ یہ طبی عملے اور مریضوں کو زخمی ہونے یا انفیکشن سے محفوظ رکھتے ہیں۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ویکسین کے استعمال کے آغاز کے بعد سے جعلی سوئیوں سے متعلق دعوے سامنے آئے ہیں۔

ان میں سے ایک دعوے میں ایک آسٹریلوی سیاست دان اپنے بازو کے قریب ٹیکہ رکھ کر تصویر بنوا رہی ہیں اور اس پر ایک 'سیفٹی کیپ' موجود تھا لیکن دعویٰ یہ کیا گیا تھا کہ ان کی کووڈ ویکسینیشن دراصل ڈھونگ تھا۔

حقیقت میں اس میں ایستاشیا پیلیسکزک جو کوئینز لینڈ کی سیاست دان ہیں جنھوں نے اپریل میں ویکسین لینے سے انکار کیا تھا اور وہ کیمرے کے سامنے تصویر بنوا رہی تھیں۔ ٹوئٹر پر اس ویڈیو کو چار لاکھ افراد دیکھ چکے ہیں۔

فوٹوگرافرز نے ان سے مزید تصاویر کی فرمائش کی تھی کیونکہ ویکسین کا انجیکشن بہت جلدی لگا دیا گیا تھا۔

ایلاباما میں کسی نرس کی وفات نہیں ہوئی

ایلاباما میں طبی شعبے سے تعلق رکھنے والے حکام نے ایک اعلامیے میں فیس بک پر پھیلنے والی اس 'جھوٹی خبر' کی مذمت کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ایک نرس کورونا وائرس ویکسین لگنے سے ہلاک ہو گئی تھی۔

خیال رہے کہ ریاست میں حالیہ دنوں میں کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کے استعمال کا آغاز ہوا تھا۔

جب محکمے کو ان افواہوں کے بارے میں بتایا گیا تو محکمہ عوامی صحت نے ریاست میں ویکسین لگانے والے تمام ہسپتالوں سے رابطہ کیا اور اس بات کی تصدیق کی کہ 'ویکسین حاصل کرنے والے کسی بھی شخص کی وفات نہیں ہوئی۔ یہ پوسٹس جھوٹی ہیں۔'

یہ کہانی ایک ایسی فیس بک پوسٹ کے باعث سامنے آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ایلاباما میں ویکسین کا استعمال کرنے والی ایک 40 کے پیٹے میں موجود نرس اس کے باعث ہلاک ہو گئی تھیں۔ تاہم اس حوالے سے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

ایک صارف نے کہا کہ یہ ان کے 'دوست کی آنٹی' کے ساتھ ہوا ہے اور انھوں نے اپنی دوست کے ساتھ ٹیکسٹ پیغامات کی ایک تصویر بھی پوسٹ کی۔

نرس سے متعلق دعووں کے بارے میں سب سے پہلے کی جانے والی پوسٹس اب آن لائن موجود نہیں ہیں تاہم اس حوالے سے سکرین شاٹس اور تبصرے اب شیئر کیے جا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ ریاست ایلاباما کے ٹسکالوسا شہر میں پیش آیا۔

شہر کے ایک ہسپتال جہاں کووڈ ویکسین کا مرکز ہے کا کہنا ہے کہ سب سے پہلی ویکسین 17 دسمبر کی صبح لگائی گئی تھی اور ٹسکالوسا کے بارے میں فیس بک پر اس قبل بات ہوئی۔

امریکہ میں امراض کی روک تھام کے مرکز کے مطابق 18 دسمبر کی رات 12 بج کر 30 منٹ تک کسی بھی شخص کی کورونا وائرس ویکسین کے استعمال کے بعد ہلاک ہونے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

کورونا وائرس، کووڈ، ویکسین
،تصویر کا کیپشنکورونا وائرس سے متعلق ایک بے بنیاد فیس بک پوسٹ جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ایلاباما میں ویکسین حاصل کرنے والی پہلی نرس ہلاک ہوگئی ہیں

فیس بک پر شائع کی جانے والی پوسٹس کو غلط قرار دیا گیا ہے۔ مگر کچھ لوگوں کے خیال میں مقتدر حلقے اس سارے معاملے پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔

متعدد غلط دعووں والی ویڈیو

جیسے ہی برطانیہ میں ابتدائی مرحلے میں لوگوں کو فائزر کووڈ ویکسین لگائی گئی تو اس سے متعلق ایک 30 منٹ کی ویڈیو لائیو چلائی گئی جس میں متعدد غلط اور وبا سے متعلق غیر واضح دعوے شامل ہیں۔

'آسک دی ایکسپرٹس' نامی فلم میں متعدد ممالک سے 30 لوگوں نے حصہ لیا، جس میں برطانیہ، امریکہ، بیلجیئم اور سوئیڈن بھی شامل ہیں۔ ان میں سے ایک شخص نے کووڈ 19 کو تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ قرار دیا۔

اس کا آغاز ہی اس دعوے سے ہوتا ہے کہ کوئی بھی ایسی حقیقی وبا نہیں ہے اور کورونا وائرس سے متعلق بنائی گئی ویکسین مؤثر یا محفوظ نہیں ہے کیونکہ اس کی تیاری میں زیادہ وقت نہیں لگایا گیا۔

یہ دونوں ہی دعوے سچے نہیں ہیں۔

بی بی سی نے اس حوالے سے تفصیل سے لکھا کہ کیسے کورونا وائرس کے خلاف استعمال کے لیے منظور کی جانے والی کسی بھی ویکسین کو کیسے انتہائی سخت جانچ پڑتال کے مراحل سے گزارا گیا ہے۔

یہ بات تو سچ ہے کہ اس وبا کے خلاف ویکسین بہت ہی تیزی سے تیار کی گئی ہے مگر اس سارے عمل میں احتیاط کا کوئی بھی پہلو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے۔

بی بی سی کی صحت سے متعلق نامہ نگار ریچل شرائر کا کہنا ہے کہ صرف فرق یہ ہے کہ کچھ مراحل ایک دوسرے سے ایسے ٹکرا رہے تھے کہ جس سے ان کی ترتیب پر فرق پڑتا تھا۔

مثال کے طور پر اس ویکسین کی آزمائش کے تیسرے مرحلے میں جب ہزاروں لوگوں کو یہ ویکسین لگائی گئی، اُس وقت دوسرا مرحلہ ابھی جاری تھا جس میں چند سو لوگوں کو یہ ویکسین لگائی گئی تھی۔

اس ویڈیو میں جو اور لوگ بھی سکرین پر نمودار ہوئے انھوں نے بھی ان بے بنیاد دعووں کو دہرایا۔

ہم نے فائزر ویکسین کی تیاری میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی سے متعلق بھی غلط نظریے سنے ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ اس وبا کی وجہ سے دوا ساز کمپنیوں کو جانوروں پر اس ویکسین کے تجربے کے مرحلے کو چھوڑنے کی اجازت دی گئی جس کی وجہ سے ہم انسانوں پر ہی تجربہ کیا گیا۔

یہ غلط دعویٰ ہے۔

لائسنس ملنے سے قبل فائزر، بائیواین ٹیک، موڈرنا اور آکسفورڈ/آسٹرازینیکا ویکسینز کا جانوروں اور انسانوں پر بھی تجربہ کیا گیا ہے

فیک نیوز کا پتا لگانے کے بی بی سی مانیٹرنگ کے ماہر الوگا رابنسن کے مطابق یہ ویڈیو ایک ایسی سوشل میڈیا ویب سائٹ پر شیئر کی گئی جو اپنے آپ کو یوٹیوب کے متبال کے طور پر دیکھتا ہے۔

غیر معیاری مواد کو ہٹانے کا دعویٰ کرنے والی ویب سائٹ نے گذشتہ چند ماہ میں ایسے صارفین کے مواد کو جگہ دی جو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر غلط معلومات پھیلاتے ہیں۔

کورونا وائرس، کووڈ، ویکسین
،تصویر کا کیپشن’آسک دی ایکسپرٹس‘ یعنی ماہرین سے پوچھیں نامی اس ویڈیو پر اب یوٹیوب اور فیس بک پر پابندی عائد ہے

اس سٹوری کے لیے اضافی رپورٹنگ ایلیسٹیئر کولیمن اور اولگا رابنسن نے کی ہے۔

Reality Check branding