کورونا اور کلورین ڈائی آکسائیڈ: کووڈ 19 کا غیر تصدیق شدہ ’کرشماتی علاج‘ جو شاید وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہے

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کئی لوگ ان دنوں کورونا وائرس کے مرض کے ’کرشمائی علاج‘ کے طور پر متنازع کیمیائی مادے کلورین ڈائی آکسائیڈ کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنے لگے ہیں۔
ایک زمانے سے لوگ ملیریا، ذیابیطس، دمہ، آٹزم اور یہاں تک کہ کینسر جیسی بیماریوں کے علاج کے لیے کلورین ڈائی آکسائیڈ کی تشہیر کرتے رہے ہیں اور اب اسے 'میریکل منرل سپلیمنٹ' یعنی ایک کرشمائی معدنیاتی مرکب کے طور پر بھی جانا جانے لگا ہے۔
لیکن اب، جب کہ پوری دنیا کووڈ 19 کی وبا کا سامنا کر رہی ہے، تو لوگ ایک بار پھر اس کیمیکل کو وائرس کے علاج کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر اپنے تجربات شیئر کر رہے ہیں۔
تاہم کسی بھی صحت کی تنظیم نے کلورین ڈائی آکسائیڈ کو دوا کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے اور سپین، فرانس، جرمنی، برطانیہ، کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا سمیت متعدد ممالک نے کلورین ڈائی آکسائیڈ کے استعمال پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی

کلورین ڈائی آکسائیڈ کے خطرات
اس کیمیکل سے وابستہ خطرات کی ایک لمبی فہرست موجود ہے اور متعدد تنظیموں نے اس کے استعمال سے متعلق سخت انتباہ جاری کر رکھا ہے۔
ایف ڈی اے نے آٹھ اپریل کو جاری ایک الرٹ میں کہا: 'کلورین ڈائی آکسائیڈ کے اثرات کے بارے میں کوئی سائنسی شواہد نہیں ہیں۔ اس سے مریض کی صحت کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کلورین ڈائی آکسائیڈ کیا ہے؟
اپنے نام سے تو یہ بلیچ یا کلورین کے قریب لگتا ہے۔
اسے ڈسٹلڈ واٹر یا خالص پانی میں سوڈیئم کلورائٹ (سوڈیئم کلورائڈ نہیں) شامل کر کے تیار کیا جاتا ہے اور اسے عموماً صفائی ستھرائی کے لیے ایک ڈس انفیکٹنٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کلورین ڈائی آکسائیڈ کی گولیوں کو پانی صاف کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
میڈرڈ یونیورسٹی میں علم کیمیا کے پروفیسر میگیل اینجل سیئرا روڈریگز کا کہنا ہے کہ 'یہ ایک جراثیم کش دوا ہے جو صنعتی شعبے میں استعمال ہوتی ہے۔ اسے کبھی بھی کھانے پینے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔'
ایف ڈی اے نے یہ بھی کہا ہے کہ کلورین ڈائی آکسائیڈ پینے سے صحت پر سنگین مضر اثرات ہوتے ہیں، یہاں تک کہ اس سے جان بھی جا سکتی ہے!
پروفیسر میگیل نے مزید بتایا: 'اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کلورین ڈائی آکسائیڈ کا کورونا وائرس پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
مہلک سائڈ ایفکٹس
کلورین ڈائی آکسائیڈ کے استعمال کے بعد مریضوں کی صحت پر سنگین اثرات سامنے آتے ہیں۔
امریکی محکمہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کو حاصل ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس کیمیکل سے جسم کا نظام تنفس متاثر ہوتا ہے اور جگر کام کرنا بند کر دیتا ہے۔
بعض مریضوں کی دل کی دھڑکن اس حد تک غیر معمولی ہو جاتی ہیں کہ مریض کی جان جانے کی نوبت آ سکتی ہے۔
اس کے علاوہ یہ خون کے سرخ خلیوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور قے و دست کی شدت بھی دیکھی گئی ہے۔
امریکی ادارے ایف ڈی اے کا کہنا ہے کہ اگر کلورین ڈائی آکسائیڈ کے استعمال کے بعد طبی مدد لینے میں تاخیر کی جائے تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کووڈ 19 کے خلاف استعمال کی افواہیں
ان تمام شواہد کے باوجود سوشل میڈیا سائٹس فیس بک اور یوٹیوب پر ایسی بہت ساری ویڈیوز موجود ہیں جن میں لوگ کلورین ڈائی آکسائیڈ کی خصوصیات بیان کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
ان ویڈیوز میں لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کلورین ڈائی آکسائیڈ وائرس اور بیکٹیریا کو مارنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
کورونا وائرس کی وبا کے دور میں بہت سے لوگ اسے کووڈ 19 کے لیے ’ایک کرشمائی علاج‘ قرار دے رہے ہیں۔
ایسی ہی ایک ویڈیو میں ایکواڈور کے شہر گوایاکویل کی ایک خاتون نے جو دمہ کی مریض بھی ہیں، کلورین ڈائی آکسائیڈ کے متعلق اپنے تجربات بیان کیے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
خاتون کی ’آپ بیتی‘
کلورین ڈائی آکسائیڈ کے مبینہ فوائد بیان کرتے ہوئے ایک خاتون نے سوشل میڈیا پر اپنی کہانی پوسٹ کی۔
'میں نے واقعی میں نے کوئی ٹیسٹ نہیں کروایا۔ میں خریداری کے لیے باہر نکلی اور سپر مارکیٹ گئی، جہاں میں لوگوں کے ساتھ رابطہ میں آئی۔ کچھ عرصے بعد مجھے بخار ہونا شروع ہوگیا اور میں بہت تھکن محسوس کرنے لگی۔ آنکھوں کے پچھلے حصے اور سر میں درد رہنے لگا۔‘
'ایک ہفتے میں میں کسی چیز کا ذائقہ محسوس نہیں کر سکتی تھی اور نہ ہی اس کی خوشبو سونگھ پا رہی تھی۔ کورونا وائرس میں مبتلا افراد میں بھی اسی طرح کی علامات دیکھنے میں آئیں۔ میں نے کچھ ہفتوں تک اچھی طرح اپنی دیکھ بھال کی۔ لیکن کلورین ڈائی آکسائیڈ کے استعمال کے بعد ہی مجھے اپنی طبیعت میں بہتری محسوس ہوئی۔‘
'میں نے ماضی میں بھی کلورین ڈائی آکسائیڈ کا استعمال کیا تھا لیکن اس کا ذائقہ بہت خراب ہے۔ اگلی صبح میرے گلے کا درد اور بخار دونوں غائب تھے اور میں بہت بہتر محسوس کر رہا تھی۔'











