کیا انڈیا کی تاریخ دوبارہ لکھی جائے گی؟

،تصویر کا ذریعہTAMIL NADU STATE ARCHEOLOGY DEPARTMENT
انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کے شہر مدورئی سے متصل کیج ہادی (کیجھاڑی) گاؤں میں محکمہ آثار قدیمہ کی ایک تفصیلی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے جنوبی ہند کا سنگم دور ابھی تک کے معلوم دور سے بھی 300 سال پرانا تھا۔
کیج ہادی مدورئی کے جنوب مشرق میں شہر سے 13 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ یہاں آثار قدیمہ کی کھدائی جاری ہے جہاں سے ویگئی دریا محض دو کلو میٹر کے فاصلے پر بہتا ہے۔
سنہ 2014 میں آثار قدیمہ کو یہاں تقریباً دو ہزار سال قبل انسانی آبادی کے شواہد ملے تھے۔
سنہ 2017 میں کیج ہادی میں ملنے والے تارکول کی کاربن ڈیٹنگ جانچ سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہاں 200 قبل مسیح انسانی آبادی ہوا کرتی تھی۔
اس وقت کیج ہادی میں کھدائی کے مقام کی نگرانی کرنے والے سپروائزر امرناتھ رام کرشنن نے مزید تحقیقی کام کے لیے درخواست دی تھی لیکن انھیں انڈیا کی شمالی ریاست آسام منتقل کردیا گیا تھا۔
اس کے بعد بھی ریاست کے محکمہ آثار قدیمہ کے سروے نے تحقیقی کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جمعرات کو ریاستی حکومت نے 2018 میں چوتھے مرحلے کی تحقیق کی بنیاد پر ایک رپورٹ جاری کی۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
گذشتہ دنوں ریاستی حکومت نے سنہ 2018 میں ہونے والی چوتھے مرحلے کی تحقیقات کی بنیاد پر رپورٹ جاری کی ہے۔

،تصویر کا ذریعہTAMIL NADU STATE ARCHEOLOGY DEPARTMENT
کجھاڑی کی شہری ثقافت ہے کیا؟
اس کھدائی میں نکلنے والی چھ اشیا کو ایڈوانس ٹیسٹ کے لیے امریکی ریاست فلوریڈا بھیجا گیا اوراس ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ یہ اشیا چھٹی صدی قبل مسیح سے لیکر تیسری صدی قبل از مسیح پرانی ہیں۔ اس ٹیسٹ سے یہ بھی پتہ چلا کہ کجھاڑی میں 353 سینٹی میٹر کی گہرائی پر ملنے والی اشیا 580 قبل مسیح اور 200 سینٹی میٹر کی گہرائی پر ملنے والی اشیا 205 قبل از مسیح سے پہلے کی ہیں۔
تمل ناڈو کا تاریخی عہد تین سو سال قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ خیال کیا جاتا تھا کہ اس دور میں گنگا کے میدانی علاقوں کی طرح تمل ناڈو میں کوئی شہری تہذیب نہیں ہوا کرتی تھی لیکن کجھاڑی سے ایسے شواہد ملے ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کنگا کے میدانی علاقوں کی طرح تمل ناڈو میں بھی اس دور میں شہری ثقافت موجود تھی۔

،تصویر کا ذریعہTAMIL NADU STATE ARCHEOLOGY DEPARTMENT
2600 سال پہلے کے لوگ تعلیم یافتہ تھے
تمل ناڈو کےگاؤں کوڈونمل اور ازگنکُلم سے ملنے والی اشیا کے جائزے کے بعد ماہرین کا خیال ہے کہ برہمی مخطوطات یعنی تحریریں تین صدی قبل مسیح پرانی ہیں۔ لیکن ابھی یہ انکشاف ہوا ہے کہ کجھاڑی سے حال ہی میں ملنے والی برہمی مخطوطات چھ صدی قبل مسیح پرانی ہیں۔
اب محکمہ آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ 2600 سال پہلے کجھاڑی میں رہنے والے لوگ لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے۔
محکمہ آثار قدیمہ کو کھدائی کی جگہ سے تقریباً ستر ہڈیاں بھی ملی ہیں ان میں 53 فیصد ہڈیاں سانڈ، بھینس، بکری اور گائے جیسے جانوروں کی ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں نے مال مویشی بھی پال رکھے تھے۔

،تصویر کا ذریعہTAMIL NADU STATE ARCHEOLOGY DEPARTMENT
تحقیق کاروں کو وہاں سے ملنے والے نوادرات کے خولوں میں ریت، لوہا اور ایلمومینیم کے ساتھ ساتھ میگنیزیم بھی ملا ہے۔
انڈیا میں اب تک ملنے والے سب سے پرانے مخطوطات وادی سندھ اور کانسی کے دور کی تہذیب کے تھے۔ تحقیق کاروں کا خیال ہے کہ کندہ کاری کا ایک طریقہ گرافیٹی ہوا کرتا تھا جو وادی سندھ کی تہذیب کے خاتمے کے بعد سے رائج تھا۔ یہ گرافیٹی یا کندہ کاری کانسی کے دور میں بھی ہوا کرتی تھی۔

،تصویر کا ذریعہTAMIL NADU STATE ARCHEOLOGY DEPARTMENT
زیادہ تر نوادرات میں برتن کے ایک جانب نقش و نگار ہوتے ہیں اور یہ نقش و نگار برتن کو پوری طرح تیار کرنے کے بعد کیے گئے ہیں۔
کجھاڑی میں دو بڑے برتنوں کے نوادرات ملے ہیں جن سے محکمہ آثار قدیمہ نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ وہاں برتن بنانے کی بڑی صنعت قائم تھی۔
کجھاڑی سے بنکروں کے کچھ اوزار، زیوارات کے ٹکڑے اور موتی بھی ملے ہیں۔ حالانکہ کھدائی کرنے والوں کوت ین جانوروں اور 13 انسانی گڑیاں، کھیلنے والی 650 چابیاں اور ٹیرا کوٹا سے بنے 35 بُندے بھی ملے ہیں لیکن اس بات کا کوئی نشان نہیں ملا کہ اس دور کے لوگ کس کی عبادت کرتے تھے۔ یعنی عبادت سے متعلق کوئی چیز نہیں ملی۔
کجھاڑی میں پہلی بار اینٹوں سے بننے والی عمارتوں کے ثبوت ملے ہیں۔










