آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
آب و ہوا میں تبدیلی: ماہ جولائی ریکارڈ پر ’ذرا‘ زیادہ گرم
- مصنف, میٹ میکگراتھ
- عہدہ, نامہ نگار برائے ماحول
عالمی درجۂ حرارت کے بارے میں دستیاب معلومات کے ابتدائی تجزیے سے لگتا ہے کہ جولائی کا مہینہ ریکارڈ کے اعتبار سے سب سے گرم مہینہ تھا، اگرچہ موجودہ ریکارڈ کے مقابلے میں یہ اضافہ معمولی تھا۔
جولائی کے پہلے 29 دنوں میں کئی ملکوں میں گرمی کی لہر آئی ہوئی تھی جو 2016 کے برابر یا اس سے کچھ زیادہ تھی۔ یہ جائزہ یورپی یونین کے کوپرنِیکس کلائمیٹ چینج سروس کے محققین نے لیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس کی تصدیق ہونا باقی ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ زمین کے گرم ہونے کی ایک اور نشانی ہے جس کی پہلے سے کوئی مثال موجود نہیں ہے۔
یہ نئی معلومات مصنوعی سیاروں اور زمین پر قائم مراکز سے اکھٹی کی گئی ہیں۔
یہ اعداد و شمار کوپرنِیکس کلائمیٹ چینج سروس کی چالیس سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں۔
اس ادارے کے جون کے لیے اعداد و شمار کی عالمی سطح پر تصدیق ہو چکی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ اگرچہ فی الحال وہ درجۂ حرارت میں اس اضافے کو براہ راست آب و ہوا میں تبدیلی سے نہیں جوڑ سکتے تاہم سائنسدان یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی سرگرمی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائڈ گیس کی وجہ سے مجموعی طور پر حدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
کوپرنِیکس کے ڈاکٹر فریجا ویمبورگ کہتے ہیں کہ 'یہ مہینہ بہت گرم تھا، مگر میرے نزدیک یہ بڑی بات نہیں۔ میرے لیے اہم یہ ہے کہ نہ صرف یہ مہینہ بلکہ اس سے پہلے والا مہینہ بھی گرم تھا۔ 2019 کے تمام مہینہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں گرم رہے ہیں۔'
'اور جب تک ہم گرین ہاؤس گیسوں میں کمی لانے کے لیے کچھ کریں گے نہیں، تب تک یہ رجحان یوں ہی جاری رہے گا۔'
عالمی حدت میں اضافہ
ویسے تو جولائی کا مہینہ گرم ہوتا ہی ہے مگر اس سال یورپ، امریکا اور آرکٹِک میں غیر معمولی گرمی کی لہر آئی ہوئی تھی۔
بیلجیئم، نیدرلینڈز اور جرمنی میں گرمی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے اور کئی جگہوں پر پارہ 40 ڈگری سینٹی گریڈ کو چھونے لگا تھا۔ برطانیہ میں بھی کیمبرج یونیورسٹی کے نباتاتی باغیچے میں 38.7 ڈگری سینٹی گریڈ کا نیا ریکارڈ قائم ہوا۔
امریکا میں بھی گرمی کی شدید لہر سے بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے اور کئی شہروں میں گرمی کے پرانے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔
آرکٹِک کے خطے میں کئی جنگلوں میں آگ بھڑک اٹھی، جس میں روس کا کچھ حصہ بھی شامل ہے۔
انڈیا میں شدید گرمی اور پانی کی کمی ساتھ ساتھ آئے۔ جاپان میں 5 ہزار سے زیادہ لوگوں کو لو لگنے کے سبب ہسپتال جانا پڑا۔
کرِسچن ایڈ کی ڈاکٹر کیتھرین کریمر کہتی ہیں کہ 'یہ سب شواہد بتاتے ہیں کہ اگر کاربن ڈائی آکسائڈ گیس کا اخراج یوں ہی جاری رہا تو گرمی بھی بڑھتی چلی جائے گی۔'
سابقہ ریکارڈ
امریکی ادارے نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرِک ایڈمنِسٹریشن کے 1880 سے جمع کیے گئے ریکارڈ کے مطابق 2016 گرم ترین سال تھا۔
ادارے کا کہنا ہے کہ ان 136 برس کے دوران آنے والے گرم ترین 10 برسوں میں سے نو برس اکسویں صدی میں آئے جبکہ صرف ایک سال، 1998 بیسویں صدی میں گزرا تھا۔