موسمیاتی تبدیلی: قطب جنوبی پر سمندر میں کھدائی کی نئی مہم

آئیس برگ

،تصویر کا ذریعہTHOMAS RONGE/AWI

،تصویر کا کیپشنقطب جنوبی پر موجود برف کی تاریخ کا اندازہ برف کی چٹانوں سے لگایا جا سکتا ہے
    • مصنف, جوناتھن ایموس
    • عہدہ, نامہ نگار سائنس

لگتا ہے کہ سائنسدانوں کی ایک ٹیم ایک ایسے سفر پر روانہ ہو گئی ہے جس کے راستے میں ان کا سامنا برف کی اتنی بڑی بڑی چٹانوں سے ہو گا جس کی مثال نہیں ملتی۔

ہو سکتا ہے ہمارے اس انداز بیان میں تھوڑی بہت مبالغہ آرائی بھی ہو، لیکن بین الاقوامی سائنسدانوں کی ٹیم قطب جنوبی کے جس سفر پر نکلی ہے وہاں وہ خود کو ایسے تنگ سمندری راستے پر پائے گی جسے ’برفیلی چٹانوں کی تنگ گلی‘ کہنا کچھ غلط بھی نہیں ہو گا۔

یہ سائنسدان اینٹارکٹِک یا قطب جنوبی پر پہنچ کر سمندر کی تہہ میں کھدائی کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس مہم کے دوران انھیں سمندر میں تیرتے ہوئے برف کے بڑے بڑے تودوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔

امید ہے کہ یہ لوگ سمندر کی تہہ سے جو مواد نکالیں گے اس سے ہمیں یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ یہ ’سفید براعظم` کن تبدیلوں سے گزرا ہے اور اس کی سطح پر موجود برف کی دبیز تہہ پر بڑھتی ہوئی عالمی حدت کے کیا اثرات ہونے جا رہے ہیں۔

سمندر میں تحقیق کے ایک بین الاقوامی منصوبے ’ انٹرنیشل اوشن ڈسکوری پروگرام` کی اس مہم کو ’ایکسپڈیشن 382 ‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ پیر 25 مارچ کو چلی کی ایک بندرگاہ سے روانہ ہوئی۔ یہ ٹیم ’برفیلی چٹانوں کی تنگ گلی‘ یا ’آئیس برگ ایلی‘ کے عین درمیان میں پہنچ کر کئی مقامات پر سمندر میں کھدائی کرے گی۔ یہ ٹیم ’جے آر‘ نامی بحری جہاز پر سوار ہے جس میں سمندر میں کھدائی کی صلاحیت موجود ہے۔

قطب جنوبی

اس مہم میں جب بحری جہاز جزیرہ نما سے بحرِ اوقیانوس کے جنوبی کونے کی جانب بڑھے گا تو سائنسدان اصل میں اس ملبے کو تلاش کر رہے ہوں گے جو گذشتہ لاکھوں برسوں میں بڑی بڑی برفانی چٹانوں سے ٹوٹ کر سمندر میں گرتا رہا ہے۔

مٹی اور چٹانوں کے ٹکڑوں سے بننے والا یہ ملبہ اصل میں براعظم انٹارکٹا سے صدیوں پہلے اس وقت الگ ہوا تھا جب یہ پورا براعظم ایک بہت بڑا گلیشئئر تھا۔

اور عرضیاتی کیمیا کے میدان میں جس قدر ترقی گذشتہ عرصے میں ہوئی ہے، اس کے طفیل اب یہ بتانا ممکن ہو گیا ہے کہ فلاں برفانی چٹان گلیشیئر سے کب الگ ہوئی تھی۔، بلکہ یہ بھی بتایا جا سکتا ہے کہ یہ انٹارکٹا کے کس حصے سے ٹوٹی تھی۔

جے آر

،تصویر کا ذریعہTHOMAS RONGE/AWI

،تصویر کا کیپشنجوئڈز ریسولوشن یا جے آر نامی بحری جہاز چلی سے روانہ ہوا ہے

سائنسدانوں کے نکتہ نظر سے یہ بات اچھی ہے کہ اس براعظم کے ماضی کا مطالعہ کرنے کے لیے انھیں برفیلی گلی تک جانا ہو گا جہاں سے وہ دو دور تک پھیلی ہوئی برف کا جائزہ بھی لے سکتے ہیں۔

برف کی جو چٹانیں گلیشئر سے ٹوٹتی ہیں وہ ساحلی ہواؤں کے دوش پر تیرنا شروع کر دیتی ہیں، لیکن جب وہ جزیرہ نما میں پہنچتی ہیں تو وہاں ان کا سامنا مخالف سمت سے آنے والی لہروں سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ چٹانیں شمال کی جانب جانا شروع کر دیتی ہیں۔

آئیس برگ

،تصویر کا ذریعہTHOMAS RONGE/AWI

،تصویر کا کیپشنجیو کیمسٹری کے ماہرین برف کی ان چٹانوں کی عمر کا تعین کر سکتے ہیں

اور برفیلی چٹانوں کی اس ہائی وے کے راستے میں کھڑا بحری جہاز آپ کو ان چٹانوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع دے گا اور آپ ان سے گرنے والے ملبے کا بھی جائزہ لے سکیں گے۔

سادہ الفاظ میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ماضی میں جتنی زیادہ برف کی چٹانیں اس گلی سے گزری تھیں، آپ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ ماضی میں قطب جنوبی کتنا غیر متسحکم رہا ہے اور یہاں برف کس رفتار پر پگھلتی رہی ہے۔

یعنی سمندر میں مٹی اور چٹانوں کی تہہ جس قدر زیادہ موٹی ہو گی اس سے ظاہر ہوگا کہ یہ تہہ اس وقت جمی تھی جب قطب جنوبی پر درجہ حرارت گرم ترین سطح پر تھا۔

یہ ساری کہانی بہت ہی سادہ انداز میں پیش کی جا رہی ہے، لیکن اس سے جو عمومی تصویر ابھرتی ہے وہ درست ہے۔ اس مہم کے دوران ’جے آر‘ سمندر سے جو ملبہ نکالے گا وہ اندازے کے مطابق دو کروڑ سال پرانا ہو گا۔

سائنسدان

،تصویر کا ذریعہTIM FULTON/IODP/JRSO

،تصویر کا کیپشنسائنسدان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جب کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار آج جتنی تھی، تب کیا ہوا تھا

اس مہم کی سربراہ پروفیسر مارین ریمو کہتی ہیں کہ یہ وہ دور تھا جب فضا میں کاربن ڈائی آسائیڈ کی شرح 400 حصے فی ملین ہوا کرتی تھی۔ یہ وہی شرح ہے جو آجکل پائی جاتی ہے۔

’میں نے بہت سا وقت یہ جاننے میں صرف کیا ہے کہ اُس وقت دنیا بھر کے سمندروں میں پانی کی سطح کیا تھی۔ اسی سے ہمیں معلوم ہو گا کہ آیا گرم موسم میں قطب جنوبی میں زیادہ تھوڑ پھوڑ ہوتی ہے یا کم۔

سائنسدانوں کی دلچسپی کا دوسرا عرصہ وہ وقت ہے جب آج سے آٹھ لاکھ سے 25 لاکھ سال پہلے کے درمیانی عرصے میں زمین پر آئیس ایج یا برف کا دور تھا۔

ایکسپیڈیشن 379

،تصویر کا ذریعہCLAYTON FURMAN/IODP/JRSO

،تصویر کا کیپشنایکسپیڈیشن 379 کو بار بار بڑی بڑی برفیلی چٹانوں کا سامنا کرنا پڑا تھا

برف کے کئی ادوار کے بعد زمین پر جوں جوں برف پگھلی اس کا تعلق سورج کے گرد ایک خاص مدار میں زمین کی گردش ہے، تاہم سائنسدان ابھی تک اس عمل کی پوری وضاحت کرنے سے قاصر ہیں۔

اس حوالے سے بی بی سی بات کرتے ہوئے پروفیسر ریمو کہتی ہیں کہ ’ میں سمجھتی ہوں کہ جو برف کی تہہ آج ہمیں قطب جنوبی پر نظر آتی ہے، یہ آٹھ لاکھ پہلے موجود نہیں تھی۔ اور اس سے پہلے یہاں پر برف کی کئی تہیں مختلف مقامات پر بنی ہوئی تھی۔‘

ان کے بقول ’ہمیں یقین ہے کہ اس مہم کے دوران ہمیں اُس دور کا ملبہ مل جائے گا۔‘

حالیہ مہم کا مرکز قطب جنوبی کا مشرقی علاقہ ہے، تاہم اس کے بعد مغربی حصے میں بھی ایسی ہی کھدائی کی جا سکتی ہے، جس کے بعد ہمیں بہتر معلوم ہو سکے گا کہ اس براعظم پر برف کب پگھلی۔

حالیہ مہم سے پہلے ’ایکسپڈیشن 379 ‘ کے نام سے جو مشن گیا تھا اس نے سمندر کی تہہ میں آٹھ سو میٹر گہرائی تک کھدائی کی تھی اور وہاں سے جو ملبہ نکالا تھا وہ سائنسدانوں کے خیال میں 60 لاکھ سال پرانا تھا۔

اُس مشن کی سربراہ ڈاکٹر جولیا ویلنر کہتی ہیں کہ یہ قطب جنوبی کا وہ حصہ ہے جو ہمارے آنکھوں کے سامنے تبدیل ہو رہا ہے اور وہاں برف کی تہہ پگھل رہی ہے۔

آئیس برگ

،تصویر کا ذریعہPETE BUCKTROUT/BAS

،تصویر کا کیپشن’برفیلی چٹانوں کی گلی‘ میں تیرتی ہوئی اکثر بڑی بڑی چٹانوں کی منزل امریکی ریاست ساؤتھ جورجیا ہے۔

’اگرچہ ہمیں اندازہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، لیکن ابھی تک ہمیں اس کی پوری سمجھ نہیں ہے۔ ہم گذشتہ کچھ عشروں سے اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے اور مستقبل میں کیا ہونے والا ہے، ہمیں ایسے جائزوں کی ضرورت ہے جو کافی عرصے پر پھیلے ہوں۔‘

لیکن ڈاکٹر جولیا ویلنر کہتی ہیں کہ یہ کام آسان نہیں ہے۔

’ہماری مہم کے دوران کئی دفعہ ایسا وقت آیا جب ہر طرف برف کی چٹاینں تھیں اور ہم سمجھ رہے تھے کہ ہم قطبِ جنوی کی ’برفیلی گلی‘ سے گزر رہے ہیں۔ ایسے میں جوں ہی کوئی بڑی برفیلی چٹان آپ کی طرف بڑھتی ہے، آپ راستے سے ہٹ جاتے ہیں اور کھدائی دوبارہ اسی وقت شروع کر پاتے ہیں جب وہ چٹان وہاں سے گزر چکی ہوتی ہے۔‘