مردوں کی نسبت شراب عورتوں کے لیے زیادہ نقصان دہ

،تصویر کا ذریعہMONKEYBUSINESSIMAGES
- مصنف, میریسا ٹیلر
- عہدہ, بی بی سی فیوچر
شراب کی تعریف میں شاعروں نے مبالغے سے کام لیا ہے لیکن بہت سے مذاہب میں اسے 'برائیوں کی جڑ' کہا گیا ہے۔
سائنس دانوں نے اس کے فوائد اور نقائص دونوں بیان کیے ہیں، تاہم نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہیں۔ حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ شراب مردوں اور عورتوں میں بھی امتیاز کرتی ہے۔
دنیا میں شراب پینے والے میں مردوں کی تعداد ہمیشہ خواتین کے مقابلے میں زیادہ رہی ہے لیکن اب خواتین میں بھی اس کا چلن بڑھ رہا ہے۔
مردوں کے مقابلے میں اب بھی خواتین کی تعداد کم ہے لیکن مغربی ممالک کی نئی نسل پر یہ بات صادق نہیں آتی۔
بطور خاص سنہ 1991 سے سنہ 2000 کے درمیان پیدا ہونے والی لڑکیاں تو شراب نوشی میں لڑکوں کے شانہ بہ شانہ ہیں اور کئی بار وہ ان سے آگے بھی نکلتی نظر آتی ہیں۔
شراب سے صحت پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن تازہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ شراب خواتین کی صحت کو زیادہ جلدی برباد کرتی ہے۔

- امریکہ میں سنہ 2000 سے 2015 کے درمیان شراب نوشی کرنے والی تقریبا 57 فیصد خواتین کی موت جگر کی خرابی سے ہوئی ہے۔
- مرنے والی خواتین کی عمر 45 سے 64 سال کے درمیان تھی۔.
- مردوں میں یہ تناسب 21 فیصد تھا۔
- 25 سے44 سال کی عمر کی خواتین میں آٹھ فیصد کا اضافہ دیکھا گيا جبکہ مردوں میں دس فیصد کی کمی دیکھی گئی۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین کے شراب نوشی کے غیر معمولی طریقوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اس کے ساتھ ہی حد سے زیادہ شراب کے معاملے میں مردوں کے مقابلے میں ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں خواتین کی زیادہ تعداد ہوتی ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ٹیلسکوپنگ کیا ہے؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images
مسئلہ یہ نہیں ہے کہ خواتین مردوں سے زیادہ شراب پیتی ہیں بلکہ فکر کی بات یہ ہے کہ عورتوں کے جسم پر اس کے اثرات زیادہ اور تیزی سے ہوتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خواتین کے جگر کو شراب کو ہضم کرنے کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔
اس کے علاوہ جو عورتیں زیادہ شراب پیتی ہیں ان میں دوسرے اقسام کے نشے کی لت کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
سائنس کی زبان میں اسے ٹیلی سکوپنگ کہا جاتا ہے۔
خواتین کے جسم پر ہونے والے اثرات

،تصویر کا ذریعہGetty Images
زیادہ الکحل پینے کی وجہ سے نہ صرف جگر کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ شراب پینے والوں کے دل اور ان کے اعصاب بھی سست پڑنے لگتے ہیں۔
حالیہ چند دہائیوں سے پہلے شراب کے خواتین اور مردوں پر مختلف اثرات کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ اس سلسلے میں پہلی تحقیق سنہ 1990 میں کی گئی۔
دراصل سنہ 1990 تک الکحل کے اثرات پر تحقیق صرف مردوں کے حوالے سے کی جاتی تھی۔
اس کا سبب یہ تھا کہ شراب کو عام طور پر مردوں کے استعمال کی چیز سمجھا جاتا تھا۔ خواتین اس کے استعمال سے دور ہی رہتی تھیں۔
پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ مردوں پر شراب کے جو اثرات ہوں گے وہی خواتین پر بھی ہوں گے۔
تحقیق میں صنفی فرق پر توجہ

لیکن جوں جوں لوگوں کے طرز زندگی میں تبدیلی رونما ہوئی شراب کا استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا۔
بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب امریکی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے طبی تحقیق میں خواتین اور نوجوانوں کی شمولیت کو ضروری قرار دیا۔
اس کے ساتھ ہی تحقیق میں صنفی فرق بھی توجہ دی جانے لگی۔
سنہ 1970 کی ایک تحقیق سے یہ پتہ چلتا ہے جو خاتون مکمل طور شراب میں ڈوب جانا چاہتی ہیں وہ اکثر بچپن میں جنسی تشدد کا شکار ہوئی ہوتی ہیں۔ اس تحقیق کے بعد ہی صنفی بنیاد پر شراب کی تحقیق پر تیزی سے کام کیا جانے لگا۔
سنہ 2000 تک برین میپنگ یعنی دماغ کی جانچ سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ مردوں کے مقابلے عورتوں کا ذہن شراب کے تعلق سے زیادہ حساس ہوتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
لیکن بوسٹن یونیورسٹی میڈیکل سکول کی پروفیسر مارلن آسکر برمن کو اس میں سقم نظر آتا ہے۔.
انھوں ایک مدت تک شراب پینے والوں کے دماغ کی نقشہ بندی کی ہے۔ ان کے مطابق خواتین کے مقابلے میں مردوں کے دماغ میں ریوارڈ سینٹر چھوٹا ہوتا ہے۔ یہ وہ حصہ ہوتا ہے جو کسی شخص کو کسی چیز کے لیے اکساتا ہے۔
انسانی دماغ کا یہی حصہ فیصلہ بھی کرتا اور شراب پینے والی خواتین میں نہ پینے والی خواتین کے مقابلے میں یہ حصہ بڑا ہوتا ہے۔
اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ شراب پینے والی خواتین کے دماغ کو کم نقصان پہنچتا ہے۔ بہر حال ابھی اس بابت قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
سماجی دباؤ کے تحت شراب نوشی

،تصویر کا ذریعہGetty Images
حالیہ تحقیق سے ایک نئی چیز یہ بھی سامنے آئی ہے کہ جب شراب کی عادی خواتین کا علاج کیا جاتا ہے، تو ان کا رویہ بہت بہتر ہوتا ہے۔
شراب کے لت کی وجہ بھی مردوں اور عورتوں میں مختلف ہوتی ہے۔ خواتین جذباتی غم دور کرنے کے لیے شراب نوشی کرتی ہیں۔ جبکہ مرد سماجی دباؤ میں شراب پینے لگتے ہیں۔
دونوں کی شراب پینے کی وجوہات یکساں نہیں تو دونوں کا طریقہ علاج بھی یکساں نہیں ہو سکتا۔
مثال کے طور پر جنسی تشدد کی شکار خواتین میں شراب کی عادت چھڑانے کے لیے انھیں شراب کے عادی مردوں کے ساتھ نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ وہ ان کی موجودگی میں خود کو محفوظ نہیں سمجھیں گی۔
اب خواتین کے لیے علیحدہ تحقیق کا زمانہ ہے اور اس کے مختلف نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔








