آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
’ذہین‘ کوّوں نے سائنس دانوں کو حیران کر دیا
جنوبی بحرالکاہل میں واقع ایک چھوٹے سے جزیرے میں کووں کی ایک ایسی نسل رہتی ہے جس کی حیران کن خصوصیات نے اسے سائنس دانوں میں کافی مقبول کر دیا ہے۔
نیو کلیڈونین نسل کے کوے نہ صرف مختلف اوزار استعمال کرتے ہیں بلکہ وہ بظاہر مشکل نظر آنے والی مشکلات کو بھی حل کرسکتے ہیں۔
اور اب سائنس دانوں نے کووں کے لیے خاص طور پر تیار کی گئی وینڈنگ مشین کی مدد سے کیے گئے تجربے کی مدد سے یہ ثابت کیا ہے کہ کس طرح ذہانت کا ارتقا ہوتا ہے۔
ان پرندوں کی نسل پر جاری تحقیق کے سلسلے میں یہ ایک نیا تجربہ ہے اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ جانوروں اور پرندوں کے لیے کس طرح سے وینڈنگ مشینیں تیار کر سکتے ہیں۔
درحقیقت یہ دلچسپ طریقے سے ڈیزائن کیا گیا ذہانت کا امتحان ہے۔ یونیورسٹی آف کیمبرج کی ڈاکٹر سارہ جیلبرٹ اس کی خالق ہیں اور وہ بتاتی ہیں کہ پرندوں کی ذہنی صلاحیت جانچنے کے لیے ضروری تھا کہ ان کو کچھ ایسا دیا جائے جس کی مدد سے ان کو کوئی نئی چیز سیکھتے ہوئے دیکھا جائے اور اس کے لیے ایسا ٹیسٹ تیار کیا گیا جو کہ پرندوں کو قدرتی ماحول میں دکھانے کو نہیں ملتا۔
'ان پرندوں کو اپنے گھونسلوں اور ٹھکانوں میں ردی کاغذ وغیرہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ تو ہم نے ایک مشین تیار کی جس میں اگر کاغذ اور ردی کے ٹکڑے ڈالے جائیں تو مشین میں سے ان کے لیے گوشت کے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں انعام نکلے گا۔'
اس پورے تجربے کے لیے سب سے ضروری تھا کہ پہلے پرندوں کو راضی کیا جائے کہ اس ڈبے نما مشین کو استعمال کرنا شروع کریں۔
ڈاکٹر جیلبرٹ نے بتایا: 'ہم نے ڈبے کے اوپر پرندوں کے لیے پتھر اور کاغذ رکھے جن کے نیچے گوشت چھپا ہوا تھا۔ پرندے اکثر ان پتھر یا کاغذ کے ٹکڑوں کو ساتھ میں موجود سوراخ میں گرا دیتے جس کے نتیجے میں مشین سے گوشت کا ٹکڑا نکل کر ان کو مل جاتا تھا۔'
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
جب پرندے بوجھ گئے کہ مشین کیسے کام کرتی ہے، تو اس کے بعد تحقیق کاروں نے کاغذ کے بڑے ٹکڑے رکھنے شروع کر دیے جو اس سوراخ میں نہیں گر سکتے تھے۔
ڈاکٹر جیلبرٹ نے بتایا کہ اس تجربے کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ کیا یہ پرندے اس بات کو سمجھ کر کاغذ کے ٹکڑے کو کاٹنا کر چھوٹا کرنا شروع کریں گے یا نہیں۔
'ہم نے دیکھا کہ ان میں سے آدھے پرندوں نے فوراً انھیں کاٹنا شروع کردیا۔'
اب تک تو سب حسب توقع تھا لیکن اس کے بعد ٹیسٹ بھی دشوار ہو گیا اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والی تحقیق بھی حیران کن ہو گئی۔
سائنسی جریدے 'نیچر سائینٹیفک رپورٹس' کے لیے کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سائنس دان یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا پرندوں کو یہ یاد رہے گا یا نہیں کہ اس سوراخ میں ڈالنے والے کاغذ کے ٹکڑے کا حجم کتنا ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر جیلبرٹ نے بتایا کہ وہ یہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ اس سے معلوم ہو کہ پرندوں میں اپنے استعمال کے لیے اوزار بنانے کی قابلیت ہے یا نہیں۔
اس تحقیق کے لیے محققین نے آٹھ پرندوں کو وینڈنگ مشین دی جو صرف اسی صورت میں کام کرتی اگر اس میں درست سائز کا کاغذ کا ٹکڑا ڈالا جاتا۔
ان پرندوں کے پاس اور کوئی سہولت نہیں تھی اور انھیں اپنی یادداشت کی مدد سے یاد رکھنا تھا کہ اس میشن کو چلانے کے لیے کس سائز کے کاغذ کے ٹکڑے کی ضرورت ہو گی۔
ڈاکٹر جیلبرٹ کہتی ہیں: ’ہم نے یہ دیکھا کہ تمام بالغ پرندوں نے فوراً کاغذ کے ٹکڑے کو وینڈنگ مشین کے مطلوبہ سائز میں بنا لیا۔'
ڈاکٹر جیلبرٹ نے بتایا کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ارتقائی عمل کئی مختلف طریقوں سے ذہانت کا ثبوت دیتا ہے۔ انسان ایک دوسرے کی نقل کرنے کو اہمیت دیتا ہے کیونکہ اس طرح ہم سیکھتے ہیں، تو ہم سمجھتے تھے کہ جانور بھی ایسا ہی کرتے ہوں گے۔
'لیکن ان پرندوں نے دکھایا کہ وہ ایسا نہیں کرتے۔'
محققین نے کہا کہ وہ ان پرندوں سے اور ان کی ذہانت سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔
'ان کوّوں میں ہم نے جو رویہ دیکھا ہے وہ انسانوں سے کافی ملتا جلتا ہے حالانکہ ان کے پاس چونچ ہے اور صرف دو پیر، لیکن وہ ان کو استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے اوزار بنا سکتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف ہم انسانوں کا طریقہ ہی درست نہیں، بلکہ اس کے علاوہ بھی کام کرنے کے اور راستے ہیں۔'