دنیا کے پہلے کمرشل ڈرون نے روانڈا میں ڈیلیوری کا کام شروع کر دیا

ڈرون، ڈیلیوری

،تصویر کا ذریعہZIPLINE

،تصویر کا کیپشنابتدائی طور پر یہ ڈرون ہسپتالوں تک خون پہنچانے کا کام کریں گے

وسطی افریقی ملک روانڈا میں دنیا کے سب سے پہلے کمرشل ڈرون کے ذریعے چیزوں کی ترسیل کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔

اس کام کے لیے ڈرونز کا استعمال کیا جا رہا ہے جو کہ خود کار طریقہ کار کے ذریعے اپنی منزل تک پہنچتے ہیں۔

یہ ڈرون ڈیلیوری پوائنٹ پر اترنے کی بجائے متعلقہ اشیا کے چھوٹے پیکجز کو ایک پیراشوٹ کے ذریعے نیچے کی جانب چھوڑ دیتا ہے۔

خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے پہلے کی نسبت اشیا کی ترسیل کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ کی جا سکے گی۔

ڈرون، ڈیلیوری
،تصویر کا کیپشناس ڈرون کو ایک غلیل کے ذریعے فضا میں چھوڑا جاتا ہے

اس کا آغاز کرنے والی سب سے پہلی امریکی کمپنی زپلین ہے اور اس پر کام کرنے والے انجینیئر اس سے قبل سپیس ایکس، گوگل، لاک ہیڈ مارٹن اور کئی دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں میں کام کر چکے ہیں۔

ابتدائی طور زپلین کے ڈرونز مغربی روانڈا میں دور دراز کے ہسپتالوں میں خون پہنچانے کا کام کریں گے تاکہ انتظار کے لمحات کو گھنٹوں سے منٹوں میں تبدیل کیا جائے۔

ڈرون، ڈیلیوری
،تصویر کا کیپشنآغاز میں امریکی کمپنی زپلین افریقہ میں ڈرون کا استعمال کر رہی ہے

یہ ڈرونز پانچ سو فٹ سے نیچے نیچے پرواز کریں گے تاکہ طیاروں کے لیے استعمال کیے جانے والے فضائی راستوں میں خلل پیدا نہ ہو۔ یہ ڈرونز 150 کلو میٹر دور تک ہی جا سکیں گے لیکن اندازوں کے مطابق یہ ڈرونز دو گنا زیادہ دور تک پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہے۔

آغاز میں 15 ’زپس‘ چوبیس گھنٹے میں 30 کلومیٹر تک کے علاقے میں پرواز کریں گے تاہم بارش، ہوا اور آسمانی بجلی کی صورت میں پرواز میں رکاوٹ ہو سکتی ہے۔

ڈرون، ڈیلیوری
،تصویر کا کیپشنخیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے پہلے کی نسبت اشیا کی ترسیل کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ کی جا سکے گی

اس سارے آپریشن کے لیے روانڈا کا محکمۂ صحت زپلین کو فی ڈیلیوری کی بنیادوں پر رقم ادا کرے گا۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ اندازاً فی ڈیلیوری پر اتنا ہی خرچ آئے گا جتنا کے اس وقت استعمال کیے جانے والے موٹر سائیکل اور ایمبولینس کے طریقے کار پر آتا ہے۔

افریقہ میں کئی مقامات پر امدادی کاموں کے لیے پہلے ہی ڈرونز کی مدد حاصل کی جارہی ہے جن میں میڈاگاسکر میں خون اور پیشاب کے نمونے ڈیلیور کرنے اور ریڈ کراس کی جانب سے یوگینڈا میں پناہ گزینوں کے کیمپ کی نگرانی شامل ہے۔

تاہم بعض امدادی کارکنوں نے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ڈرون ہمیشہ صحیح نہیں ہوتے۔