|
شمالی کوریا: امریکی ناکام ہوگئے | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
جیفری رچلسن ، واشنگٹن میں نیشنل سکیورٹی آرکائیوز کے سینئرفیلو ہیں۔ انہوں نے امریکی انٹیلی جنس اور خلاء میں امریکی جاسوسی کے بارے میں تین معرکتہ آراء کتابیں لکھی ہیں۔ اب پچھلے دنوں ان کی تازہ کتاب امریکا کی جوہری جاسوسی کے بارے میں شائع ہوئی ہے۔ نام اس کتاب کا SPYING ON THE BOMB ہے۔ یہ کتاب نازی جرمنی کے دور سے لے کر حال میں ایران اور شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کی امریکی جاسوسی کی عالمی داستان پر مشتمل ہے۔ یہ داستان انیس سوانتالیس میں پہلی بار ایٹمی دھماکے کے بعد نازی جرمنی سے شروع ہوتی ہے اور سوویت یونین، چین ، فرانس، اسرائیل، ہندوستان ، پاکستان، جنوبی افریقہ، عراق، لیبیا ، ایران اور شمالی کوریا کے جوہری عزائم اور خفیہ کاوشوں کا بڑی گہرائی میں جا کر احاطہ کرتی ہے۔ شمالی کوریا کے بارے میں عام طور پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ پاکستان کے جوہری سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے شمالی کوریا کو جوہری صلاحیت حاصل کرنے میں مد دی ہے گو جیفری رچلسن نے شمالی کوریا کے جوہری عزائم کے سلسلہ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے تعاون اور مدد کا ذکر کیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے روابط سے چالیس سال پہلے سن انیس سو پچپن میں اپنا جوہری پروگرام شروع کیا تھا جب آں جہانی صدر کم ال سنگ کی حکومت نے سوویت یونین سے جوہری تحقیق میں تعاون کا معاہدہ کیا تھا۔ انیس سو چونسٹھ میں چین کے کامیاب جوہری تجربہ کے بعد شمالی کوریا نے چین سے جوہری اسلحہ کی تیاری میں مدد کی درخواست کی تھی لیکن ماؤ زی تنگ نے یہ درخواست ٹھکرا دی تھی۔ تاہم دو سال بعد سوویت یونین نے اسے دو سے چار میگاواٹ کا ریسرچ ری ایکٹر فروخت کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ یہ ری ایکٹر دارالحکومت پیانگ یانگ سے ساٹھ میل شمال مشرق میں کوریونگ دریا کے کنارے یانگ بیون کے شہر کے قریب نصب کیا گیا۔ یہ ری ایکٹر اقوام متحدہ کی جوہری توانائی کی ایجنسی آئی اے ای اے کے تحفظات کے ماتحت تھا۔ یہیں یانگ بیون میں سوویت اور شمالی کوریا کے سائنس دانوں نے جوہری ریسرچ کا مرکز قائم کیا۔ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے بانی لی سنگ کی تھے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ انہوں نے شمالی کوریا کے دیرینہ دشمن جاپان کی کیوٹو امپیریل یونیورسٹی سے انجیرنگ میں ڈاکٹریٹ حاصل کی تھی۔ گو ان کا تعلق جنوبی کوریا سے تھا لیکن سن پچاس کی دہائی میں کوریا کی جنگ کے دوران وہ وہاں سے فرار ہو کر شمالی کوریا چلے گئے تھے۔ سن اسی کے عشرہ میں شمالی کوریا نے یانگ بیون میں تیس میگاواٹ کے ریسرچ ری ایکٹر کی تعمیر کا کام شروع کیا تھا اور سن چھیاسی میں یہ ری ایکٹر مکمل کر لیا۔ گو امریکا نے اپنے جاسوسی سیٹلائٹ ُ کوروناُ کے ذریعہ سن انیس سو اکسٹھ میں یانگ بیون میں جوہری سرگرمیوں کا پتہ چلا لیا تھا لیکن یہ سرگرمیاں اتنی خفیہ تھیں کہ سی آئی اے ان کی تفصیل نہ جا سکی۔ البتہ سن انیس سو تیراسی میں امریکا کے نئے اور طاقت ور جاسوسی سیارچہ ’ہیکسگون‘ کے ذریعہ انکشاف ہوا کہ یانگ بیون میں ایک بڑا جوہری ری ایکٹر نصب کرلیا گیا ہے اور سی آئی اے کی خفیہ اطلاع تھی کہ شمالی کوریا کے سائنس دانوں کو سوویت یونین میں تربیت مل رہی ہے۔ سن پچاسی میں جب شمالی کوریا نے این پی ٹی پر دستخط کیے تو یہی کہا گیا کہ شمالی کوریا کا یہ اقدام در اصل سوویت یونین سے مزید جوہری امداد حاصل کرنے کے لیے تھا۔ اس وقت بھی امریکا کے جاسوسی ادارے شمالی کوریا کے جوہری عزائم کا صحیح اندازا نہیں لگا سکے۔ سن انیس سو نواسی میں پہلی بار امریکا نے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام پر تشویش ظاہر کی اور اس سلسلہ میں اپنے اتحادیوں کے علاوہ چین اور سوویت یونین سے بھی بات چیت کی تاکہ شمالی کوریا کو اپنا جوہری پروگرام ترک کرنے پر آمادہ کیا جا سکے لیکن اس کوشش میں امریکا کو کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ سن انیس سو اکانوے میں شمالی کوریا کی جوہری سرگرمیوں میں بڑے پیمانہ پر توسیع ہوئی اور دو مقامات پر یورینیم کی کان کنی شروع ہوئی۔ بحیرہ جاپان کے کنارے ھنگ نام میں اور جنوب میں پیانگ سانگ میں۔ اس دوران امریکا کو نئی خفیہ اطلاعات ملیں کہ یانگ بیون میں نئی جوہری تنصیبات قائم کی گئی ہیں اور زیر زمین تجربہ گاہ تعمیر کی گئی ہے لیکن اس بارے میں شہادت محض سیارچہ کی تصاویر پر مبنی تھی۔ امریکی جاسوسی کے ذرائع شمالی کوریا کے اندر کوئی ٹھوس شہادت حاصل نہیں کر سکے اور انہیں کسی ایسے سائنس دان تک رسائی حاصل نہیں ہو سکی جو منحرف ہونے اور راز اگل دینے پر آمادہ ہو۔ ویسے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام میں سرائیت کرنے کے لیے امریکا نے انیس سو پچانوے میں شمالی کوریا کو ہلکے پانی کے ری ایکٹر کی تعمیر کے لیے ایک سو ملین ڈالر کی جوہری امداد دینے اور دو ارب ڈالر کی مالیت کے ٹھیکے دینے کی پیشکش کی تھی۔ اس سے پہلے شمالی کوریا نے انیس سو بانوے اور تیرانوے میں آئی اے ای اے کو اپنی جوہری تنصیبات کے چھ معائنوں کی اجازت دی تھی جس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ شمالی کوریا نے مارچ سن نوے میں پلو ٹونیئم کو جدا کرنے کا عمل مکمل کر لیا تھا۔
سن انیس سو تیرانوے کے آخر میں جب صدر کلنٹن نے کھلم کھلا یہ پیمان کیا کہ شمالی کوریا کو جوہری بم بنانے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی تو اس وقت امریکا کے خفیہ اداروں کا یہ تجزیہ تھا کہ اس بات کا پچاس فی صد امکان ہے کہ شمالی کوریا نے جوہری اسلحہ تیار کر لیا ہے اور کم از کم دو بم تیار کرنے کے لیے اس نے چھبیس پونڈ پلوٹونیم حاصل کر لیا ہے۔ دوسرے معنوں میں گھوڑے اصطبل سے نکل بھاگے اور اب انہیں پکڑنا آسان نہیں تھا۔ لیکن انیس سو ننانوے تک امریکا کے جاسوسی ادارے واضح طور پر یہ تعین نہیں کر سکے کہ شمالی کوریا کے اصل عزائم کیا ہیں اور ملک کی نئی قیادت جس کی باگ ڈور کم ال سنگ کے بیٹے کم جانگ کو منتقل ہو چکی ہے اب کیا ارادے رکھتی ہے۔ جیفری رچلسن کی تحقیق کے مطابق شمالی کوریا کے یورینیم کی افزودگی کے پروگرام میں پاکستان کی مدد اور تعاون کے بارے میں پہلی بار امریکا کے جاسوسی اداروں کو سن انیس سو ستانوے میں شبہہ ہوا تھا۔ اسی زمانہ میں شمالی کوریا نے یورینیم کی افزودگی کا پروگرام شروع کیا تھا۔ نومبر دو ہزار ایک میں امریکا کے خفیہ ادارے زیڈ ڈویژن نے ایک نہایت خفیہ رپورٹ مرتب کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ شمالی کوریا نےیورینیم کی افزودگی کا پلانٹ تعمیر کرنا شروع کیا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کے سائنسداں شمالی کوریا کے سائنس دانوں کو تربیت دے رہے ہیں۔ تاہم رپورٹ میں اس بارے میں ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے گئے تھے۔ امریکا کے جاسوسی ادارے سی آئی اے، این ایس اے اور این کیو او، گو پاکستان کے جوہری سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھے ہوئے تھے خاص طور پر ایران، لیبیا اور شمالی کوریا سے ان کے روابط پر، لیکن ان اداروں کو اپنے تمام وسیع تر وسائل کے باوجود کوئی ایسا ثبوت نہیں مل سکا تھا کہ جس کی بنیاد پر کوئی کارروائی کی جاسکتی۔
سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جارج ٹینٹ نے اعتراف کیا تھا کہ ’ہم نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مکان چھان مارا، ان کی تنصیبات میں بھی ہم گئے اور ان کے کمرے کو بھی ہم نے کھنگال ڈالا لیکن اس کے باوجود سی آئی اے کو کچھ نہ ملا۔ جیفری رچلسن کی کتاب سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے سلسلہ میں امریکا کی جاسوسی سراسر ناکام رہی۔ سن دو ہزار پانچ تک امریکی جاسوسی اداروں کا محض یہ خیال تھا کہ شمالی کوریا کا جوہری پروگرام تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے لیکن اس کی اصل حقیقت اور تفصیلات کا انہیں قطعی علم نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب شمالی کوریا نے دس فروری سن دو ہزار پانچ کو پہلی بار اعلان کیا کہ اس کے پاس جوہری اسلحہ ہے تو امریکی قیادت ہکا بکا رہ گئی۔ |
اسی بارے میں شمالی کوریا پر پابندیوں کا ووٹ16 July, 2006 | آس پاس شمالی کوریا نے کئی میزائل داغے05 July, 2006 | آس پاس ’کوریا کشیدگی بڑھا رہا ہے‘21 June, 2006 | آس پاس شمالی کوریا کو پھر امریکی تنبیہہ17 June, 2006 | آس پاس امریکہ کو شمالی کوریا کا انتباہ09 April, 2006 | آس پاس | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||