http://www.bbc.com/urdu/

Thursday, 20 July, 2006, 01:59 GMT 06:59 PST

شا ہ زیب جیلانی
بی بی سی واشنگٹن

امریکہ میں حزب اللہ مخالف مظاہرے

امریکہ میں آج کا ایک سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ لبنان میں عام لوگوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے باوجود امریکہ کیوں بظاہر کچھ نہ کرنے کی پالیسی پر مُصر ہے ؟ جواب یہ ہے کہ کسی ملک کی خارجی حکمتِ عملی سمجھنی ہو تو اُس کے داخلی سیاسی محرکات سمجھنا ضروری ہوجاتا ہے۔

باقی دنیا اسرائیل کو جارہیت اور بربریت کا ذمہ دار بھلے ہی ٹہرائے، امریکہ میں اسرائیل کی حامی تنظیمیں اپنی روایتی انتھک محنت میں مصروف ہیں کہ امریکہ، اسرائیل کی حمایت سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے ۔

اسرائیل کی حمایت میں دیگر امریکی شہروں کی طرح دارالحکومت میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔ یہودی اور کٹر عیسائی فرقے ایونجیلیکل کرسچن چرچ لابی کا بش حکومت پر زور ہے کہ وہ حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی کاروائی کی ہر قیمت پر حمایت کرے ۔

واشنگٹن کے مظاہرے میں دھوپ اور گرمی کے باوجود کئی سو افراد نے حصہ لیا ۔ ان میں عورتیں ، بچے ، بزرگ اور معذور افراد بھی شامل تھے ۔ سکیورٹی سخت تھی اور ہر طرف امریکہ اور اسرائیل کے پرچم موجود تھے ۔

مظاہرین نے اسرائیل کے ساتھ اپنی یکجہتی دکھانے کے لئے پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے جن پرشام اور ایران کے خلاف نعرے درج تھے ۔ یہودی رہنماؤں اور اسرائیل کے حامی اراکینِ کانگرس نے اس موقع پر تقاریر میں موجودہ حالات کا ذمہ دار حزب اللہ ، شام اور ایران کو ٹھرایا ۔

ریلی میں شامل ایک شخص کا کہنا تھا کہ امریکہ کو چاہئیے کہ وہ جنگ بندی کی جلد بازی میں پڑنے کی بجائے اسرائیل کو موقع دے کہ وہ اس بار حزب اللہ کے خاتمے کے لئے ہر ممکن اقدام اُٹھائے ۔

لیکن اسی مظاہرے میں شامل بعض ایسے بھی امریکی یہودی تھے جو فوری امن کا مطالبہ کر رہے تھے ۔ ایک خاتون ششانکا سِمکا کا کہنا تھا کہ وہ لبنان میں بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر امریکہ کی بظاہر بے حسی سے سخت پشیمان ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک پر امن اسرائیل اور ایک پر امن مشرقِ وسطیٰ کے لئے ضروری ہے کہ امریکہ اپنا کردار ادا کرے اور سب سے پہلے جنگ بندی یقینی بنانی چاہیئے ۔

واشنگٹن میں بدھ کے روز اس مظاہرے سے کچھ ہی دور ایک مقامی ہوٹل میں امریکہ کی نسبتاً غیر موثر عرب امریکی تنظیموں کا ہنگامی اجلاس جاری تھا۔

ملک بھر سے آئے سو کے قریب سرکردہ عرب امریکیوں نے لبنان کے حالات پر بش انتظامیہ کی نکتہ چینی کی ۔ اجلاس سےبعض عربی نژاد امریکی اراکینِ کانگریس نے بھی مختصر خطاب کیا ۔ تقریباً تمام مقررین نے حزب اللہ کے میزائیل حملوں اور اسرائیلی فوجیوں کو قبضے میں لینے کی مذمت کی ۔ جن چند اراکین کانگریس نے بش انتظامیہ پر اسائیل کو کھلی چھوٹ دینے پر تشویش ظاہر کی وہ اپنے لب و لہجے میں بے بس سے دکھائی دیئے ۔

اجلاس کے منتظم اور عرب امریکن انسٹیٹیوٹ کے صدر جیمز زاگبی سے میں نے پوچھا کہ امریکہ میں بعض دوسری برادریوں کی نسبت عرب مسلمان کیوں قدرے غیر موثر دکھائی دیتے ہیں؟ اُن کا جواب تھا کہ ہم خود کو منظم کر رہے ہیں لیکن اسرائیلی لابی جتنا اثر حاصل کرنے کے لئے ہمیں سخت محنت کی ضرورت ہے اور اس میں وقت لگے گا ۔