|
غزہ: دو ہفتوں میں دوہزاراسرائیلی گولے | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ انہوں نے اپریل کے مہینے میں شمالی غزہ میں توپ کے دو ہزار گولے فائر کیے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ انہوں نے فلسطینی شدت پسندوں کی طرف سے ہونے والے راکٹوں کے حملوں کے جواب میں یہ گولے داغے ہیں۔ غزہ کی پٹی کے قریب اسرائیلی فوج کی توپیں مسلسل گولے فائر کر رہی ہیں اور ان کی گھن گرج دور تک سنائی دیتی ہے۔ کچھ ہی میل دور غزہ کی پٹی میں ٹریکٹروں سے ہل چلایا جا رہے۔ اتنے میں اسرائیلی توپ کا ایک گولہ سیٹی بجاتا ہوا اوپر سے گزر گیا۔ پھر زور دار دھماکے کے بعد ہی ہوا کا گولہ بلند ہوا۔ یہ گولہ ایک کسان سے میٹر دور گرا تھا۔ کسان اڑتی ہوئی دھول سے برآمد ہوا اور اپنا کام دوبارہ شروع کر دیا۔ اسرائیل ایسے کھلے علاقوں کو نشانہ بنا رہا ہے جہاں سے فلسطینی شدت پسند کارروائیاں کرتے ہیں لیکن دنیا کی جدید ترین فوجی بھی غلطی سے بالا نہیں۔ میں چند روز قبل ایک ایسے علاقے میں گیا جہاں ایک گھر میں توپ کا ایک گولہ چھت پھاڑ کر اند گرا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے یہ کارروائی دو گھنٹے قبل ہونے والے ایک راکٹ حملے کے جواب میں کی ہے۔ ایک بچے نے روتے ہوئے مجھے بتایا کہ اس حملے میں اس کے گھر کے افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ایک آٹھ سالہ لڑکی بھی ہلاک ہوئی ہے۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق ایک ہفتے میں چالیس فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں اور نوّے بچوں کا صدمے سے باہر نکالنے کے لیے علاج کیا گیا ہے۔ اسرائیلی گولہ باری معمول بنتی جا رہی ہے اور اوسطاً ایک دن میں ایک سو پچاس گولہ پھینکے جاتے ہیں۔ دن رات شہر گولوں کے شور سے گونجتا رہتا ہے جس کے بازگشت گلیوں میں سنائی دیتی ہے اور بعض اوقات عمارتیں لرز اٹھتی ہیں۔ میں نے آدھے گھنٹے میں پچیس گولوں کےگرنے آواز سنی۔ اسرائیل کہتا ہے کہ توپوں کا استعمال اس لیے کرتا ہے کیونکہ فلکسطینی شدت پسند ان پر راکٹ پھینکتے رہے ہیں۔ یہ راکٹ گھریلو ساخت کے ہوتے ہیں لیکن ماضی میں ان سے اسرائیلی ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ کے قریب ایک اسرائیلی گاؤں میں پنینا رگولسکی نے بتایا کہ ان کے گھر میں راکٹ گرنے سے ان کے بیٹے کی گرل فرینڈ ہلاک ہو گئی تھی۔ ’وہ بہت پیاری لڑکی تھی‘۔ راکٹ فائر ہونے کے بعد بچوں کو سائرن سنائی دیتا ہے جس کے بعد ان کے پاس کسی محفوظ جگہ تک پہنچنے کے لیے بیس سیکنڈ ہوتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں اس وقت تک سکون نہیں ہوگا جب تک اسرائیل میں سکون نہیں ہوتا۔ اپریل کے پہلے دو ہفتوں میں ستّر فلسطینی راکٹ فائر کیے گئے تھے۔ اسرائیل غزہ پر دو ہزار سے زیادہ گولے برسا چکا ہے۔ بہت سے فلسطینی خواہش کا اظہار کرتے ہیں کے شدت پسند راکٹ فائر کرنا بند کر دیں کیونکہ اسرائیلی کی جوابی کارروائیاں زیادہ زور دار ہوتی ہیں جن میں شہری ہلاک ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال غزہ سے نکلتے ہوئے اسرائیل کو امید تھی کہ اس کے مسائل میں کمی آ جائے گی۔ لیکن فی الحال کوئی بھی فریق پسپائی کی بات نہیں کر رہا۔ | اسی بارے میں غزہ: 24 گھنٹے میں3 اسرائیلی حملے 08 April, 2006 | آس پاس اسرائیلی فضائی حملے میں چھ ہلاک08 April, 2006 | آس پاس غزہ پولیس کا پرتشدد مظاہرہ15 April, 2006 | آس پاس جمہوری قدروں کی پامالی کا الزام16 April, 2006 | آس پاس | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||