Wednesday, 01 March, 2006, 09:32 GMT 14:32 PST
عراق کے معزول صدر صدام حسین نے کہا ہے کہ ان کے دور حکومت میں کیے گئے اقدمات کے وہ اکیلے ہی جوابدہ ہیں۔
صدام حسین سات ساتھیوں سمیت اپنے خلاف چلنے والے مقدمے کی کارروائی کے دوسرے دن عدالت کے روبرہ بیان دے رہے تھے۔
صدام حسین نے کہا کہ عدالت کو ان کےسوا کسی اور کو مقدمے میں ملوث نہیں کرنا چاہیے۔
منگل کومقدمے کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تھی اور استغاثہ نے ایک ایسی دستاویز پیش کی تھی جس کے مطابق صدام حسین نے مبینہ طور پر دجیل میں 148 اہل تشیع کی ہلاکت کی منظوری دی تھی۔
وکیل کا کہنا تھا کہ 1982 میں صدام کے قتل کی ناکام کوشش کی گئی تھی جس کے انتقام میں سابق عراقی رہنما نے اس دستاویز پر دستخط کر کے دجیل کی ہلاکتوں کی منظوری دی تھی۔
صدام حسین کا دفاع کرنے والے وکلاء کی ٹیم ایک ماہ کے بائیکاٹ کے بعد عدالت میں حاضر ہوئی۔ وکلاء دفاع نے استغاثہ، عدالت کے جج کی تبدیلی اور پیشی کو ملتوی کرنے کےمطالبات کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد جانبدار ہیں تاہم یہ مطالبات جج نے رد کردیئے۔ جس پر دو وکلاء دفاع نے احتجاجًا واک آؤٹ کیا۔
وکیل استغاثہ جعفر الموساوی نے ایک دستاویز عدالت میں پیش کی جس پر مبینہ طور پر 14 جون 1984 کی تاریخ تھی اور اس میں دجیل کے 148 شیعہ افراد کے لیئے سزائے موت کی منظوری دی گئی تھی۔ اس پر صدام کے مبینہ دستخط موجود تھے۔
استغاثہ کا کہنا تھا کہ دجیل کے ان افراد کو کبھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ اب تک عدالت میں استغاثہ کے 26 گواہان کو پیش کیا جاچکا ہے۔
صدام اور ان کے ساتھی دجیل کے قتل عام کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
اس سے قبل پیر کو صدام حسین نے گیارہ روز کی بھوک ہڑتال ’خرابی صحت‘ کے باعث ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔