http://www.bbc.com/urdu/

Thursday, 23 February, 2006, 10:08 GMT 15:08 PST

جرمی بوین
بی بی سی مشرقی وسطیٰ ایڈیٹر

عراق خانہ جنگی کے دہانےپر

عراق کے ان لوگوں کے لیے جو ملک میں موجودہ بدامنی میں جانی نقصان اٹھا چکے ہیں، یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی کہ کیا عراق میں جنگ کی صورتحال کیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک جنگ ہے جس نے بہت سے عراقیوں کو دکھی کر دیا ہے۔

عراق میں ہر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ کیا اس وقت عراق میں خانہ جنگی شروع ہو چکی ہے یا نہیں۔ عراقی صدر جلال طالبانی کو بھی یہی پریشانی لاحق ہے۔

قوم سے اپنے تازہ خطاب میں صدر جلال طالبانی نے ملک میں خانہ جنگی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ملکی یکجہتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

عراق میں اب تک پرتشدد کارروائیوں کا تعلق ملک میں موجود امریکی فوج کی موجودگی سے جڑا ہوا تھا لیکن یہ بات بدھ سے پہلے کی ہے۔

بدھ کو امام الہادی کے مقبرہ میں بم دھماکوں سے عراق میں تشدد کی جو لہر پھوٹی ہے اس میں خانہ جنگی شروع ہونے کے تمام آثار پائے جاتے ہیں۔

خانہ جنگی شروع ہونے سے نہ صرف ملک میں مرکزی حکومت بنانے میں مزید دشواریاں پیش آئیں گی بلکہ اس سے عراق کے کئی حصوں میں بٹ سکتا ہے۔ عراقی خانہ جنگی مشرقِ وسطیٰ میں عدم استحکام کے لیے بھی اچھی خبر نہیں ہو گا۔
بدقسمتی سے عراق میں کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جن کا خیال ہے کہ خانہ جنگی ان کے لیے مفید ہے اور وہ اپنے سیاسی مقاصد آسانی سے حاصل کر سکیں گے۔

مقدس مزاروں کو نشانہ بنانے والوں کا ملک میں خانہ جنگی پھیلانے کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں ہو سکتا اور ان کا شاید خیال ہے کہ ان حملوں سے خانہ جنگی تیزی سے پھیلے گی۔

اس ساری صورتحال میں حوصلہ افزا امر صرف وہ سیاستدان ہیں جو یہ بات سمجھتے ہیں کہ مقدس مزاروں پر حملوں سے خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو سکتی جو جو ملک اور علاقے کے لیے اچھی بات نہیں ہے۔