BBCUrdu.com
  •    تکنيکي مدد
 
پاکستان
انڈیا
آس پاس
کھیل
نیٹ سائنس
فن فنکار
ویڈیو، تصاویر
آپ کی آواز
قلم اور کالم
منظرنامہ
ریڈیو
پروگرام
فریکوئنسی
ہمارے پارٹنر
آر ایس ایس کیا ہے
آر ایس ایس کیا ہے
ہندی
فارسی
پشتو
عربی
بنگالی
انگریزی ۔ جنوبی ایشیا
دیگر زبانیں
 
وقتِ اشاعت: Thursday, 16 February, 2006, 12:07 GMT 17:07 PST
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
امریکہ کا گوانتانامو بے بند کرنےسے انکار
 
گوانتانامو کے قیدی
گوانتانامو کے قیدیوں کی قانون تک رسائی نہیں ہے
امریکہ نے اقوام متحدہ کی طرف سے گوانتاناموبے میں واقع جیل کو بند کرنے کا مطالبہ یہ کہہ کرمسترد کر دیا ہے کہ وہاں پر رکھے گئے قیدیوں سے انسانی سلوک کیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے کہا ہے کہ جلد یا بدیر گوانتانامو کے قید خانے کو بند کرنے کی ضرورت ہو گی۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیق کرنے والے اہلکاروں کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکی حکومت جلد از جلد گوانتانامو بے کو بند کرنے کا فیصلہ کرے گی۔

رپورٹ کا جواب دیتے ہوئے وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا کہ گوانتانوموبے میں رکھے جانے والے افراد ’خطرناک دہشتگرد‘ ہیں۔

ترجمان سکاٹ میکلین اقوام متحدہ کی جس رپورٹ کا جواب دے رہے تھے اس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ گوانتانوموبے میں رکھے ہوئے پانچ سو قیدیوں پر مقدمہ چلائے یا انہیں ’بغیر کسی تاخیر کے‘ رہا کرے۔

اقوام متحدہ کے تحقیق کارروں کے مطالبہ گوانتانوموبے میں موجود پانچ سو قیدیوں میں سے کچھ قیدیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے وہ تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔

امریکہ نے اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کے الزامات رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے کسی تحقیق کار نے درحقیت گوانتانومو بے کا دورہ ہی نہیں کیا ہے۔ اس نے رپورٹ کے بارے میں کہا ہے کہ وہ حقائق پر مبنی نہیں ہے۔

گوانتانوموبے میں افغانستان، پاکستان اور دوسری جگہ سے گرفتار کیے جانے والے القاعدہ کے بہت سے مبینہ کارکنوں کو رکھا گیا ہے ۔بعض قیدی بغیر کسی مقدمہ کے چار سال سے جیل میں ہیں۔

اقوام متحدہ کے ایک تحقیق کار مینفریڈ نویک نے کہا ہے کہ سالوں تک بغیر مقدمہ چلائے لوگوں کو قید رکھنا غیر قانونی حراست ہے۔ مینفریڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ حراست میں رکھے گئے لوگوں کے خلاف ان الزامات کے تحت مقدمہ چلانے پڑے گا یا پھر ان کو رہا کرنا ہو گا۔

انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یا تو ان لوگوں کو فوری طور پر رہا کرنا ہوگا یا انہیں کسی مجاز اور مناسب عدالت کے سامنے پیش کر کے ان کے خلاف الزامات پر مقدمے کی کارروائی کی جانی چاہیے‘۔

لندن میں رپورٹ جاری کرنے سے پہلے اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق لیوئیس آربور نے کہا کہ وہ گوانتاموبے جیل کے بارے میں تحیقاتی رپورٹ کے تمام حصوں کی توثیق نہیں کر سکتی لیکن ان کے خیال میں اس جیل کو بند کرنے کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے۔

اس رپورٹ کے کچھ حصے اس ہفتے کے آغاز میں منظر عام پر آ گئے تھے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ قیدیوں سے امریکہ کا سلوک ان کی جسمانی اور ذہنی صحت اور حقوق کی پامالی کے مترادف ہے۔

رپورٹ کے مطابق طاقت کا بے جا استعمال اور بھوک ہڑتال کے دوران قیدیوں کو ناک کے ذریعے زبردستی خوراک دینا بھی تشدد ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان الزامات پر امریکہ کی جانب سے تفتیش کا نہ کیا جانا تشدد کے بارے میں اقوام متحدہ کے کنونشن سے متصادم ہے۔

رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے نمائندوں کو کیمپ کے تمام حصوں تک بغیر رکاوٹ کے جانے کی اجازت دی جائے اور قیدیوں سے اکیلے میں بات چیت کرنے کی بھی اجازت دی جائے۔

پچھلے سال امریکہ نے اقوام متحدہ کے نمائندوں کو کیمپ دیکھنے کی دعوت دی تھی لیکن انہیں قیدیوں کے ساتھ تنہائی میں بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ ’تنہائی میں قیدیوں کے انٹرویو دورے کی بنیادی شرط ہے جس پر سمجھوتا نہیں ہو سکتا‘۔ اس وجہ سے اقوام متحدہ نے اپنے تفتیش کار بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔

پینٹاگون کا کہنا ہے کہ قیدیوں تک رسائی صرف ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کو ہونی چاہیے۔ ریڈ کراس کو قیدیوں تک رسائی دی گئی ہے لیکن یہ اپنی رپورٹ صرف بھیجنے والے ملک کے حکام کو ہی پیش کرتی ہے۔

حالیہ رپورٹ سابقہ قیدیوں، قیدیوں کے وکلاء، ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں، غیر سرکاری تنظیموں اور ایک سوالنامے پر امریکی حکومت کے جوابات کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔

 
 
اسی بارے میں
تازہ ترین خبریں
 
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
 

واپس اوپر
Copyright BBC
نیٹ سائنس کھیل آس پاس انڈیاپاکستان صفحہِ اول
 
منظرنامہ قلم اور کالم آپ کی آواز ویڈیو، تصاویر
 
BBC Languages >> | BBC World Service >> | BBC Weather >> | BBC Sport >> | BBC News >>  
پرائیویسی ہمارے بارے میں ہمیں لکھیئے تکنیکی مدد