|
عراق میں ہلاکتوں میں اضافہ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
عراق کے دارالحکومت بغداد میں ہونے والےچار کار بم حملوں میں آٹھ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ اتوار کے روز ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد پولیس اہلکاروں کی تھی۔ گزشتہ دو روز میں ملک میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب نوے ہوگئی ہے جبکہ ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ حملہ آور کے دھماکے سے ایک شیعہ مسجد کے قریب ایک پٹرول ٹینکر اڑگیا تھا جس کے نتیجے میں مکانات، چائے خانوں اور دوکانوں سمیت کئی عمارتوں کو آگ لگ گئی تھی۔ اتوار کے روز ہونے والا پہلا حملہ بغداد کے مشرق میں واقع ایک پولیس چوکی پر ہوا جس کے نتیجے میں دو پولیس کمانڈوز سمیت تین افراد ہلاک اور نو پولیس اہلکاروں سمیت تیرہ افراد زخمی ہوئے۔ دوسرا کار بم حملہ شہر کے جنوبی علاقے میں ہوا اور اس میں ایک پولیس کمانڈو ہلاک اور تین عام شہری زخمی ہوئے۔ بی بی سی کے ایک نامہ نگار کا کہنا ہے کہ المسیب میں پہلے بھی دھماکے ہوتے رہے ہیں لیکن ایسے دھماکے کی مثال نہیں ملتی۔ عراق میں خود کش حملوں میں تیزی آ گئی ہے اور صرف پچھلے ایک ہفتے میں سولہ خود کش حملوں میں سو سے زیادہ عراقی ہلاک ہو گئے ہیں۔ جعمہ کے روز ایک دن میں دس خود کش بم ہوئے۔ ایک اسلامی ویب سائٹ پر عراق میں سرگرم القاعدہ نے کہا کہ عراق میں ان کے رہنماء ابو مصعب الزرقوی نے انہیں حملے تیز کرنے کا حکم دیا ہے۔ سنیچر کو تین برطانوی فوجی اس وقت ہلاک کر دیئے گئے جب شمال مشرقی عراق کے شہر امارہ میں روڈ پر پڑا ہوا بم پھٹ گیا جہاں سے برطانوی فوجیوں کی گاڑی گزر رہی تھی۔ المسیب کربلا کے نزدیک واقعہ ہے اور یہاں سنی اور شیعہ دونوں اس شہر میں بستے ہیں ۔ المسیب کے پولیس سربراہ نے کہا کہ آج کا دن المسیب کی تاریخ میں سب سے سیاہ دن ہے۔ |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||