Friday, 10 June, 2005, 19:05 GMT 00:05 PST
امریکی حکام نے کہا ہے کہ مغربی عراق میں ایک حملے میں پانچ امریکی میرین فوجیوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
بم حملے میں مارے جانے والے یہ فوجی حقلانیہ نامی قصبے میں ایک آپریشن میں حصہ لے رہے تھے۔
یہ حملہ صوبہ انبار میں ہوا جہاں اس سے قبل مبینہ طور پر سترہ افراد کی لاشیں ملی تھیں جن کے سر قلم کیے ہوئے تھے۔
حکام کے مطابق علاقے سے بائس عراقی فوجیوں کو اغوا کر لیا گیا تھا تا ہم ابھی تک یہ واضع نہیں ہے کہ قائم نامی قصبے کے قریب سے ملنے والی لاشوں میں عراقی فوجی اہلکار شامل ہیں یا نہیں۔
دوسری جانب عراقی پولیس کے مطابق کرکوک اور بصرہ میں ان کے کچھ افسران کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
قائم کے قریب سے ملنے والی سترہ لاشوں میں سےگیارہ ایک قبر نما گڑھے میں پڑی ہوئی تھی۔
عینی شاہدین، جن میں ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک رپورٹر بھی شامل ہیں، نے بتایا ہے کہ لاشوں کے ہاتھ قیدیوں کی طرح پیچھے بندھے ہوئے تھے اور انہوں نے وردیاں نہیں پہنی ہوئی تھی بلکہ سادہ کپڑوں میں تھے۔
ان سترہ لاشوں کے ملنے سے ایک دن قبل چھ افراد کی لاشیں ملی تھی اور وہ بھی سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد کی تھیں۔
عینی شاہدین کے مطابق کچھ نعشوں کے سر کٹے ہوئے تھے۔
پولیس کے مطابق بدھ کو کھو جانے والے عراقی فوجی قائم کے بیس سے چھُٹی گزارنے بغداد جا رہے تھے اور انہوں نے سادہ کپڑے پہن رکھے تھے۔
بدھ ہی کے دن عراق کے سب سے زیادہ مطلوب شدت پسند ابو مصعب الزرقاوی نے ایک ویب سائٹ پر دعوٰی کیا تھا کہ ان کے گروپ نے چھتیس عراقی فوجیوں کو مغربی عراق سے اغوا کر لیا ہے۔
شام کی سرحد کے قریب واقع صوبہ انبار کوشدت پسندوں کا ٹھکانہ سجھا جاتا ہے اور یہاں گزشتہ ہفتوں میں عراقی اور امریکی فوجیں آپریشن کرتی رہی ہیں۔
اس دوران عراق کے شمالی شہر کرکوک میں پولیس نے بتایا ہے کہ ان کے دہشت گردی کے شعبہ کے سربراہ کرنل رحیم عثمان اور ان کے نائب میجر غنیم جہاد کو جمعرات کو گولی مار کر ہلاک کر دیاگیا ہے۔
جمعہ کو بصرہ میں ایک حملہ میں مقامی پولیس کے کمانڈر کرنل عبدالکریم دراجی کو بھی ہلاک کر دیا گیا ہے۔ کار میں سوار تین یا چار افراد نے پولیس کمانڈر کی کار پرگولیوں کی بوچھاڑ کی جس سے وہ موقع پر ہلاک ہو گئے۔