Monday, 16 May, 2005, 10:36 GMT 15:36 PST
سوتک بسواس
بی بی سی آن لائن
جنوبی ایشیا میں ہم جنس پرست یا ’گے‘ اور ’لیزبین‘ لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں شروع کیے جانے والے اس سلسلہ کا یہ پہلا مضمون ہے۔
وہ ایک تربیت یافتہ کمپیوٹر پروفیشنل ہیں اور ایک دفتر میں کام کرتی ہیں، لیکن وہ برسوں سے ایک دوہری زندگی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
دفتر میں وہ اپنا اصل نام استعمال کرتی ہیں جب کہ باہر کی دنیا میں، جہاں وہ ہم جنس پرست عورتوں اور ’بائی سیکشوئل‘ یا دوہرے جنسی تعلقات والے افراد کی مدد کے لیے قائم ایک گروپ کی سربراہ ہیں، ان کا نام کچھ اور ہے۔
وہ اپنی پارٹنر یا ساتھی کے ساتھ رہتی ہیں جو خود دوہری زندگی گزار رہی ہیں۔ دونوں نے مل کر کلکتہ شہر کے مشرقی حصہ میں ایک گھر لے رکھا ہے جس کو خریدنے کے لیے قرضہ لینے کے لیے انہیں ایک بینک سے چھ سال تک لڑنا پڑا۔
اکتالیس سالہ مالوبیکا نے کہا ’جب ہم دونوں قرضہ کے لیے پہلی دفعہ بینک گئیں تو مجھے بتایا گیا کہ میں مشترکہ درخواست میں اپنی پارٹنر کا نام نہیں دے سکتی۔ دوسرا درخواست دہندہ صرف میرا شوہر ہو سکتا ہے۔ آخر چھ سال بعد بینک ہمیں قرضہ دینے پر رضامند ہوا۔ میں نے اپنی ساتھی کا نام ایک دوست کے طور پر دیا۔‘
قدامت پسند انڈیا جہاں اپنی ہی جنس کے ساتھ تعلقات رکھنے کو غیر قانونی اور توہین آمیز سمجھا جاتا ہے، مالوبیکا جیسی ہم جنس پرست عورتوں کومنظر عام پر آنے کے لیے ایک طویل اور عجیب وغریب سفر سے گزرنا پڑا ہے۔
ملک کا ایک سو پینتالیس سال پرانا قانون یعنی انڈین پینل کوڈ ہم جنس پرستی کو ایک ’غیرفطری فعل‘ قرار دیتا ہے۔
یہ معاشرہ بڑی حد تک مردوں کا معاشرہ ہے اسی لیے جب بات قانون کے اطلاق اور معاشرتی ناکہ بندی کی آتی ہے تو ہم جنس مردوں کےمقابلہ میں ہم جنس عورتوں کو زیادہ سختی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انڈیا کی کئی ریاستوں میں گھر اور گھر سے باھر ہراساں کیے جانے کی وجہ سے ہم جنس پرست عورتیں(لیزبین) خود کشی کر چکی ہیں۔
![]() اس بظاہر آزادی میں بیزاری بھی پنہاں ہے۔ |
مالوبیکا اور اس کی دوست اس معاملےمیں خوش قسمت رہیں۔ جیسا کہ ان میں سے ایک نے کہا بھی ’ہم تعلیم یافتہ ہیں اور ہمیں ایک خاص کلاس یا طبقہ میں ہونے کا فائدہ بھی ہے‘۔
ایک ایسے گھرانہ میں پیدا ہونے کے بعد کہ جہاں والد مکینیکل انجینیر اور والدہ ایک گھریلو خاتون ہیں، مالوبیکا کو اپنی جنسیت کے بارے میں سترہ سال کی عمر میں ہی معلوم ہو گیا تھا۔ اس کے اٹھارہ برس بعد، جب اس کے والدین پریشانی میں اس کے لیے رشتہ ڈھونڈ رہے تھے، تو اس نے آخر کار اُن کو سچ بتا ہی دیا۔
’ میری ماں کہنے لگی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تم کیا کہہ رہی ہو۔اس سارے معاملہ کو ٹھنڈا ہونے میں کچھ وقت لگا‘ کلکتہ کی ایک ٹی شاپ میں بیٹھے ہوئے مجھے مالوبیکا نے بتایا۔
مالوبیکا اور اس کی پانچ لیزبین دوستوں نے پانچ سال قبل مشہور یونانی شاعر ’سیفو، کے نام سے ایک گروپ کا آغاز کیا جس کا مقصد ہم جنس پرست عورتوں کی مدد کرنا ہے۔
یہ لوگ مِل کر ایک ہیلپ لائین چلانے کے علاوہ ایک میگزین نکالتی ہیں اور انسانی حقوق سے متعلق واقعات کو سامنے لاتی ہیں۔
یہ ہیلپ لائین اس گروپ کے لیے ایک ایسا دریچہ ثابت ہوا جس کے ذریعے انہیں بھارت میں ہم جنس عورتوں کی تاریک دنیا میں جھانکنے کا موقع ملا۔
اس ہیلپ لائین پر فون کرنے والی زیادہ تر عورتوں کا کہنا ہے کہ ان کے والدین نے زبردستی ان کی شادیاں کر دی ہیں۔
اور جب وہ سچ بتاتی ہیں توان کےشوہر، والدین اور رشتہ دار انہیں گھروں سے نکال دیتے ہیں۔
ان عورتوں کی اکثریت کم مائیگی اور غزت نفس کی کمی کا شکار ہوتی ہے اور ان کا خیال ہوتا کہ ان میں کوئی بہت بڑی خرابی ہے۔
’سیفو‘ کی ہیلپ لائین پر ایک عورت نے پریشانی میں پوچھا ’ کیامیں نارمل ہوں؟ کیا میں دوسری عورتوں جیسی نہیں ہوں؟‘
اسی طرح ایک مرد نے پریشانی میں کال کیا اور کہا ’میری بیوی کہتی ہے کہ وہ لیزبین ہے۔ آپ اس کا علاج کر سکتے ہیں؟‘
سیفو کی ہیلپ لائین پر ایک ماہر نفسیات بھی موجود ہوتی ہے جو اس قسم کی عورتوں کو تسلی اور مشورہ دیتی ہے۔۔ اور مردوں کو بھی۔
سیفو میں کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بھارت میں ہم جنس پرستوں کے بارے میں شدید مخالفانہ جذبات پائے جاتے ہیں۔
مالوبیکا کے مطابق جب والدین کو سچ معلوم ہوتا ہے یا عورتیں انہیں خود بتاتی ہیں تووالدین سب سے پہلے ڈاکٹر کی طرف بھاگتے ہیں۔
’زیادہ تر ڈاکٹر لڑکیوں کو تیراکی، کھانا پکانے اور سلائی کڑھائی کا کام کرنے کو کہتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس طرح وہ دوبارہ لڑکیاں بن جائیں گی۔‘
’اس کے بعد اکثر والدین لڑکی کو گھر لے جاتے اور اسے گھر میں بند کر دیتے ہیں اور باہر کی دنیا سے اس کا رابطہ منقطع کر دیتے ہیں۔‘
گھر سے نکالے جانے کے بعد دیہاتوں سے کئی لڑکیاں شہروں کا رخ کرتی ہیں۔
مالوبیکا کو ایک ایسی ہی اٹھایس سالہ لڑکی کی کہانی یاد ہے جس نے گھر سے بھاگ کر کلکتہ میں ایک بیوٹی پارلر میں ملازمت شروع کر دی اوراپنی ساتھی کے ساتھ رہنے لگ گئی۔
چار سال بعد اس کے ناراض والدین اسے ملنے آئے۔ اور تب سے انہوں نے اس لڑکی کے نئے تعلق کو قبول کر لیا۔
کلکتہ جیسے بڑے شہروں میں آج کل ایسے رشتوں کو قبول کرنے کا رجحان قدرے زیادہ ہے۔ باقی دنیا کی طرح اب بھارت میں بھی گےاور لیزبین لوگوں کی تحریک بڑھتی جا رہی ہے۔
اکتیس سالہ رفیق الحق کے مطابق’ اِن دنوں بڑے شہروں میں ہم جنس لوگوں کے بارے میں کھل کر بات ہوتی ہے۔ لیکن ابھی تک ایسے لوگوں سے نفرت خاصی زیادہ ہے۔‘
![]() پاون دھل ’گے‘لوگوں کے درمیان غیر محفوظ سیکس کے بارے میں فکر مند ہیں |
اس کی ایک وجہ عام لوگوں میں یہ سوچ ہے کہ ہم جنسیت کے قائل افراد اپنے جنسی رویہ میں بہت جارحانہ ہوتے ہیں یعنی وہ اپنی جنسی ضرورت کے لیے کسی کو بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
مثلاً رفیق الحق کے مطابق ایک ’لبرل‘ جوڑے اور اُن کے بیٹے سے میری اچھی دوستی تھی لیکن انہوں نے اپنے بیٹے کو مجھ سے ملنے سے منع کر دیا اور اس کی ماں نے مجھ سے کہا ’اگر میرا بیٹا تم جیسا بن گیا تو میں خود کشی کر لوں گی‘۔
تاہم اب کھلے بندوں اپنے جنسی میلان کو تسلیم کرنا قدرے آسان ہو گیا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ صرف مغربی بنگال کی ریاست میں تقریباً نو ایسے گروپ یا مراکز ہیں جو’گے‘ اور ’لیزبین‘ افراد کی مدد کر رہے ہیں۔
رفیق الحق کا، جنہوں نےخودایک ایسا ہی مرکز بنانے میں خاصا اہم کردار ادا کیا، کہنا ہے کہ تین سالوں میں ان کامرکز پانچ ہزارگےمردوں سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوا۔
دو سال قبل رفیق نے کلکتہ میں گے لوگوں کے لیے ایک چھوٹے سے میلے کا انعقاد کیا۔ تب سے یہ میلہ ایک سالانہ تقریب بن چکا ہے۔
اس چودہ دن کے میلہ میں گے لوگوں کے مسائل پر ڈرامے پیش کیے جاتے ہیں، اس کمیونٹی کے ممبران مسائل پر بحث ومباحثہ کرتے ہیں اور کتابیں وغیرہ فروخت کی جاتی ہیں۔
میلے کا اختتام ایک رنگا رنگ مارچ پر ہوتا ہے۔ ایک جلوس نکالا جاتا ہے جو کلکتہ کی سڑکوں سے گزرتا ہے۔گزشتہ سال تقریباً تین سو گےاور لیزبین افراد نے اس مارچ میں حصہ لیا تھا۔
لیکن اب بھی بھارت میں ایک گے مرد کے لیے زندگی گزارنا آسان نہیں۔اسے عموماً دفتر میں بےعزتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اپنا ساتھی ڈھونڈنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گے افراد کی اکثریت عموماً تاریک گلیوں اور ویران پارکوں میں گھوم رہی ہوتی ہے اور یوں وہ پولیس کی نظر میں آجاتے ہیں جو ان سے رشوت بٹورنا چاہتی ہے۔
چھتیس سالہ پاون دھل کے مطابق’ اپنے لیے ساتھی ڈھونڈنا آسان نہیں ہے۔ ابھی تک مجھے کوئی دیرنہ ساتھی نہیں ملا۔کبھی کبھی بہت اکیلا پن محسوس کرتا ہوں۔‘
’ گے افراد میں خاصے غیر محفوظ جنسی رویے بھی پائے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے صورت حال کوئی زیادہ اچھی نہیں ہے۔‘