Sunday, 17 April, 2005, 11:57 GMT 16:57 PST
چینی وزیرِخارجہ لی ژاؤ زنگ نے کہا ہے کہ چین ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں پر جاپان سے معافی نہیں مانگے گا۔
لی ژاؤ زنگ کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ مظاہرے نہیں بلکہ جاپان کی جانب سے ماضی میں کیے گئے جنگی مظالم ہیں۔
انہوں نے یہ بات جاپانی وزیرِ خارجہ نوبو تاکا مچیمورا کے دورۂ بیجنگ کے موقع پر کہی ہے جو جاپان کے خلاف گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری مظاہروں پر چینی حکام سے احتجاج کرنے کے لیے بیجنگ پہنچے ہیں۔
چین کے دورے سے قبل نوبو تاکا مچیمورا نے چین کے اعلیٰ حکام پر زور دیا تھا کہ وہ چین میں مقیم جاپانیوں کی زندگیوں اور املاک کا تحفظ کریں۔
نوبو تاکا مچیمورا کی چین آمد کے موقع پر بھی چین کے مختلف شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ چین کے شمال مشرقی شہر شین یانگ میں ایک مظاہرے میں دس ہزار افراد نے شرکت کی۔
چینی لوگ جاپان میں چھپنے والی تاریخ کی ایک کتاب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جس میں ان کا کہنا ہے کہ جاپان کے جنگی مظالم پر پردہ ڈالا گیا ہے ۔ جاپان کے سکیورٹی کونسل میں مستقل رکنیت کے لیے کوششوں کی وجہ سے بھی چین میں جاپان کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔
چین اور جاپان کے تعلقات گزشتہ بدھ کو اس وقت مزید کشیدہ ہوگئے تھے جب جاپان نے مشرقی چینی سمندر کے متنازعہ علاقے میں تیل کی تلاش کی اجازت دے دی تھی۔
بیجنگ میں بی بی سی کے نمائندے کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک میں سے کوئی بھی مصالحت کے موڈ میں نہیں ہے اور دونوں ممالک کے عوام اپنی اپنی حکومت کے مؤقف کی حمایت کر رہے ہیں۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژن وا کے مطابق چین کے سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ ’ ان مظاہروں کی وجہ چاپان کا غلط رویہ اور تاریخی واقعات کو غلط طریقے سے پیش کرنا ہے‘۔
مظاہروں کا آغاز سنیچر کو دارالحکومت بیجنگ سے ہوا تھا جس میں دس ہزار لوگوں نے شرکت کی تھی۔ سن انیس سو ننانوے کے بعد شہر میں یہ سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔چین کےمشرقی شہر ہانگ ذو میں بھی تقریباً دس ہزار مظاہرین نے شہر کی سڑکوں پر مظاہرے کیے تھے۔
بیجنگ میں حکام نے ایک بیان میں لوگوں سے مظاہروں میں حصہ نہ لینے کی اپیل کی تھی۔حکومت نے تیانمن سکوائر میں احتجاج روکنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی اور سکوائر میں داخل ہونے والوں کی جانچ پڑتال کی گئی۔
جاپان کے سفارتخانے کے باہر پولیس کی بڑی تعداد اب بھی موجود ہے۔