BBCUrdu.com
  •    تکنيکي مدد
 
پاکستان
انڈیا
آس پاس
کھیل
نیٹ سائنس
فن فنکار
ویڈیو، تصاویر
آپ کی آواز
قلم اور کالم
منظرنامہ
ریڈیو
پروگرام
فریکوئنسی
ہمارے پارٹنر
ہندی
فارسی
پشتو
عربی
بنگالی
انگریزی ۔ جنوبی ایشیا
دیگر زبانیں
 
وقتِ اشاعت: Thursday, 06 May, 2004, 15:17 GMT 20:17 PST
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
یہ قیدی عراقی ہیں
 

 
 
 ابو غریب
مبینہ طور پر اس شخص کو ہلاک کرنے کے بعد بیمار ظاہر کرکے اسپتال لے جایا گیا
بغداد کے مغرب میں واقع ابو غریب نامی ایک قدیم جیل ہے۔ جسے معزول صدر صدام کے دور میں بھی وہی شہرت حاصل تھی جو آج عراق پر امریکی اور اس کے اتحادیوں کے قبضے کا ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد حاصل ہوئی ہے۔

اس جیل میں صدام کے ان گنت مخالفین زندگی سے محروم ہوئے، لاپتہ ہو گئے اور تشدد کا نشانہ بنے۔ ابو غریب اور عراق میں اس جیسی جیلوں اور ایسے ہی دوسرے حوالوں نے امریکہ کو عراق پر حملے کا عذر، جواز اور بہانہ فراہم کیا۔

اب ابو غریب میں خاص طور پر اور عراق اور افغانستان میں امریکیوں کے قیدیوں سے غیر انسانی سلوک کے جو واقعات سامنے آئے ہیں ان کی امریکی حکام بھی تردید نہیں کر رہے۔

ان واقعات کا تعلق کئی سال سے ہے کیونکہ ان کا آغاز افغانستان سے ہوا اور گوانتاناموبے اس کا ایک کھلا ثبوت تھا لیکن اس کے باوجود کوئ کارروائی نہیں کی گئی ۔

امریکی جریدے ’دی نیو یارکر‘ نے اس انکوائری کی رپورٹ کے اقتباس شائع کیے ہیں جو عراق میں امریکی افواج کے جنرل ریکارڈو ایم سانچیز نے جیلوں سے ملنے والی شکایات کے بارے میں کرائی۔

اس رپورٹ میں جن بد سلوکیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں قیدیوں کو برہنہ کرنا، توہین آمیز انداز اور زاویوں سے ان کی برہنہ تصاویر بانا، قیدیوں پر کیمیکل لائٹس توڑنا اور ان پر فاسفورک محلول انڈیلنا، برہنہ قیدیوں پر ٹھنڈا پانی انڈیلنا، قیدیوں کو جھاڑو کے ڈنڈے اور کرسیوں سے مارنا، مرد قیدیوں کو زنا کی دھمکی دینا، تشدد کے نتیجے میں قیدی کا جسم پھٹنے کی صورت میں جیل کے ملٹری پولیس کے محافظ کو ٹانکے لگانے کے لیے کہنا، شامل ہیں۔

ایک قیدی کی مقعد میں کیمیکل لائٹ اور جھاڑو کا ہتھہ گھسیڑا گیا۔ قیدیوں پر فوجی چھوڑے گئے اور فوجی کتوں سے کٹوانے کی دھمکیاں دی گئیں۔ ایک ایک کتے نے ایک قیدی کو کاٹ بھی لیا۔

میجر ریکارڈو کہتے ہیں کہ ان تمام باتوں کی انتہائی واضح تصویری شہادتیں موجود ہیں اور یہ تصاویر اور ویڈیو اس وقت بنائی گئیں جب یہ سب کچھ کیا جا رہا تھا۔

ان واقعات کی ذمہ داری اب تک چھ افراد پر ڈالی گئی ہے جن میں سرجنٹ ایوان ایک فریڈرک عرف چپ، ماہر چارلس اے گرانر، سرجنٹ جا ول ڈیوس، ماہر میگناایمبہول، ماہر سبرینہ ہرمن، اور پرائویٹ جرمی سوٹس شامل ہیں اور ان پر سازش، فرائض میں غفلت، قیدیوں سے ظلم، بدسلوکی، قیدیوں پر حملہ اور نا مناسب سلوک۔ ان میں سے ایک ملزم پرایئویٹ لینڈی انگلینڈ حملہ ہونے کے بعد مستعفی ہو چکی ہیں اور شمالی کیلیفورنیا میں رہتی ہیں۔

ان الزامات میں ہلاک ہونے والوں کا کوئی ذکر نہیں جب کہ ابو غریب میں کہ از کم ایک قیدی کو موت یقیناً ہوئی ہے جب کہ ایک قیدی بصرہ میں ہلاک بتایا جاتا ہے۔

 ابو غریب
یہ مبینہ چھ امریکی ملزمان میں سے ایک خاتون امریکی فوجی ہے جس کا رپورٹ میں کئی جگہ ذکر ہے ایک قیدی نے اسے تصویر کو دیکھ کر شناخت بھی کیا ہے اس کے انداز سے ظاہر ہے جیسے وہ ایک قیدی کے عضو کی طرف گولی چلانے کے انداز میں اشارہ کر رہی ہو

ان میں سے ایک ملزم 26 سالہ ڈیوس کے والد کا کہنا ہے کہ ڈیوس ایک روحانی آدمی ہے اس کی ایک چار سالہ بیٹی ہے اور دس سالہ بیٹا، اس کی بیوی امریکی بحریہ کی ملازم ہے، اور وہ ایک اچھا باپ ہے۔

خود اس کا کہنا ہے کہ ملّری انٹیلیجنس کے لوگ اس بدسلوکیوں کی تصدیق کر رہے ہیں اور ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ’ہمارے قوانین مختلف ہیں‘۔

ڈیوس کو ایک تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ڈھیر کی صورت ایک دوسرے پر لٹائے گئے قیدیوں کو ٹھوکر مار رہا ہے۔ ان تمام ملزمان کی عمریں چوبیس سے سینتیس سال کے درمیان ہیں اور ان میں سے اکثر کا کورٹ مارشل ہو گا۔

اسی سال فروری میں مکمل کی جانے والی یہ رپورٹ تریپن صفحات پر پھیلی ہوئی ہے اور اسے میجر جنرل انتونیو تاگوبا نے مرتب کیا تھا۔

اسی رپورٹ کو نیو یارکر نے حاصل کیا اور اس کے اقتباس شائع کیے ہیں۔ نیویارکر کا کہنا ہے کہ رپورٹ بدسلوکی کے بعض مرتکبین کے بیانات اور تصاویری شہادتوں پر مبنی ہے۔

یہ رپورٹ صدر بش کے اس اعتراف سے پہلے شائع ہوئی کہ انہیں پہلی بار جنوری میں اس بات کا علم ہوا تھا کہ عراق میں قیدیوں کے ساتھ مبینہ بد سلوکی ہوئی ہے۔

صدر بش نے اس کا انکشاف عربی ٹی وی الحرا کو دیے گئے انٹرویو میں کیا ہے اور ان سے پہلے یہ بات نیویارکر کی رپورٹ میں بھی شائع ہو چکی تھی کہ جنرل کارپنسکی کو جنہوں نے دسمبر 2003 میں ’سینیٹ پیٹرسبرگ ٹائمز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’ جیلوں کے حالات ان کے ( قیدیوں ) گھروں سے اس قدر اچھے ہیں کہ ہمیں یہ سوچنا پڑتا ہے کہ شاید وہ کبھی جیل چھوڑ کر نہ جائیں۔‘

اس کے ایک ماہ بعد ہی نیو یارکر کے مطابق جنرل کارپنسکی کو عراق میں تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا گیا اور معطل کر کے عراق میں فوجی جیلوں کے بارے میں بڑے پیمانے پر تحقیقات شروع کر دی گئیں۔

 ابو غریب
یہ عراقی قیدی ہیں اور ان کے قریب مبینہ طور پر ایک امریکی مرد فوجی اور ایک خاتون فوجی ہیں وہ کیسا محسوس کر رہے یہ ان کے چہروں سے ظاہر ہے

نیویارکر میں رپورٹ کے اقتباسات کے مطابق ابو غریب کو صدام اقتدار کے خاتمے کے بعد عراقیوں نے مکمل طور پر برباد کر دیا تھا، اس کے تمام دروازے اور کھڑکیاں توڑ دی گئی تھیں اور جب امریکیوں نے اس جیل کو پھر سے بطور جیل استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تو بڑے پیمانے پر اس کی مرمت کی گئی۔

جون دو ہزار تین میں فوج کی ریزرو بریگیڈیر جنرل جینس کارپنسکی کو آٹھ سوویں ملٹری پولیس کا کمانڈر مقرر کرکے عراق لایا گیا اور عراق میں فوجی جیلوں کا انچارج بنایا گیا۔

وہ جنگ زدہ عراق میں امریکہ کی واحد خاتون کمانڈر تھیں۔ اس سے پہلے انہوں نے انیس سو اکیانویں کی جنگِ خلیج کے دوران کئی کارروائیوں میں حصہ لیا تھا اور انٹیلیجنس افسر کے فرائض انجام دیے تھے تاہم انہیں جیل یا جیلوں کا نظام چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن انہیں عراق میں تین بڑی جیلوں ، آٹھ بٹالینز اور فوج کے تین ہزار آٹھ سو ریزرو کی کمان دے دی گئی تھی یہ سب جیلوں کا نظام چلانے کے لیے جنرل کارپنسکی کے معاون تھے اور ان میں سے اکثر کو کبھی کسی جیل میں کام کرنے کا تجربہ نہیں تھا۔

دی نیویارکر میں شائع ہونے والی میجر جنرل ریکارڈو کی رپورٹ کی اب تک امریکی ذرائع نے کسی سطح سے کوئی تردید نہیں کی اور نہ ہی اس کے مندرجات کے بارے میں کچھ کہا ہے۔

 
 
تازہ ترین خبریں
 
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
 

واپس اوپر
Copyright BBC
نیٹ سائنس کھیل آس پاس انڈیاپاکستان صفحہِ اول
 
منظرنامہ قلم اور کالم آپ کی آواز ویڈیو، تصاویر
 
BBC Languages >> | BBC World Service >> | BBC Weather >> | BBC Sport >> | BBC News >>  
پرائیویسی ہمارے بارے میں ہمیں لکھیئے تکنیکی مدد