عراق میں امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے القاعدہ سے منسلک ایک شدت پسند کی جانب سے عراق میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کی ایک سازش بے نقاب کی ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے اردن سے تعلق رکھنے والے ایک مشتبہ شدت پسند ابو مصاب الزرقوی کا ایک پیغام ضبط کیا ہے۔
اس پیغام میں امریکی افواج کو عراق میں نکال دینے میں ناکامی پر تو غم و غصہ کا اظہار کیا گیا ہے مگر یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ شیعہ سنّی تنازعہ مزاحمت میں معاونت کرسکتا ہے۔
عراق کے سابق صدر صدام حسین، جو سنّی تھے، کے دور میں ملک کی شیعہ اکثریت کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ پیغام ایک کمپیوٹر ڈسک پر محفوظ تھا جو گزشتہ جنوری میں بغداد کے ایک مکان پر چھاپے کے دوران ضبط کیا گیا تھا۔
یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب عراق میں ایک پاکستانی باشندے حسن گل کو گرفتار کیا گیا ہے جس کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ القاعدہ کا پیغام رساں ہے۔
پیر کو عراقی دارالحکومت بغداد میں ایک پریس کانفرنس میں امریکی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل مارک کمٹ نے صحافیوں کو بتایا ’یہ غیر ملکیوں کا ایک بڑا واضح منصوبہ تھا کہ وہ اس ملک میں آئیں، کسی خانہ جنگی کو بھڑکانے کی کوشش کریں، فرقہ واریت کو اچھالیں اور معاشرے میں پھوٹ ڈالیں۔۔۔‘
سترہ صفحات پر مشتمل اس پیغام کا، جس کا کچھ حصہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا، تعلق بظاہر القاعدہ سے نظر آتا ہے جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ عراق میں شیعہ اہداف کو نشانہ بنائے جانے کا ردعمل سنّی اقلیت کے خلاف ظاہر ہوسکتا ہے۔
اس کے جواب میں عراق کے سنّی عوام میں ایک انقلابی بیداری پیدا ہوگی اور اس طرح القاعدہ کی صفوں میں نیا خون آئے گا۔
اس پیغام میں کیا گیا ہے ’اگر ہم انہیں (عراق کی شیعہ اکثریت کو) فرقہ وارانہ جنگ کی طرف دھکیل دیں تو اس کے نتیجے میں شیعوں کے ہاتھوں تباہی و بربادی اور موت کے خوف میں مبتلا سوتی ہوئی سنّی اکثریت بیدار ہوسکتی ہے۔
اس پیغام میں تسلیم کیا گیا ہے کہ امریکی قبضے کے خلاف مزاحمتی تحریک، عراقیوں کی بھرتی کے لیے کوشاں ہے۔ پیغام میں کہا گیا ہے کہ یہ مہم لازمی طور پر ’زیرو آور‘ یعنی جون میں عراقیوں کی اپنی حکومت کے قیام سے قبل شروع ہوجانی چاہیے۔
واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کا کہنا ہے کہ اس خط سے جنگ سے قبل کے اس امریکی مؤقف کو تقویت ملتی ہے کہ عراقی قیادت اور القاعدہ کے درمیان روابط موجود تھے۔
جنگ سے قبل اقوام متحدہ سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے کہا تھا کہ زرقوی عراق میں موجود ہے اور اس کی وہاں موجودگی ثابت کرتی ہے کہ صدام حسین القاعدہ کی پرورش کررہے ہیں۔
تاہم کولن پاول کے اس الزام کی عراقی حکومت اور اسلامی تنظیم انصار الاسلام دونوں ہی نے تردید کی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ زرقوی اسلامی تنظیم انصاراسلام سے وابستہ رہے ہیں۔
بی بی سی کے نامہ نگار باربرا پلیٹ کا کہنا ہے کہ عراق میں القاعدہ کے کسی کردار کے بارے میں امریکی خفیہ اداروں کے تمام تر دعوے درست ثابت نہیں ہوئے۔
لیکن نامہ نگار کا کہنا ہے کہ اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو پھر ان کئی فرقہ وارانہ وارداتوں کی وضاحت ہوجاتی ہے اور جو عراقی پولیس اور امریکی فوجیوں کے خلاف جاری حملوں کے سلسلے سے بالکل علیحدہ ہی رہی ہیں۔
ان وارداتوں ہی میں سے ایک گزشتہ اگست میں ایک مسجد کے بہار ہونے والا وہ بم دھماکہ بھی شامل ہے جس کے تیجے میں درجنوں افراد کے ساتھ ساتھ عراق کی شیعہ اکثریت کے سیاسی و روحانی رہنما آیت اللہ باقر الحکیم بھی ہلاک ہوئے تھے۔
امریکہ الزام لگاتا رہا ہے کہ زرقوی عراق میں ہونے والے کئی حملوں میں ملوث ہے۔ ضبط کئے جانے والے پیغام میں ایسے پچیس حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے جو ملک کی شیعہ اکثریت اور ان کے رہنماؤں کے خلاف، امریکیوں اور ان کی فوج اور پولیس کے خلاف کئے گئے۔