عرب دنیا کے رہنماؤں نے لیبیا کی طرف سے اپنے جوہری اور کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام کو ختم کرنے کے اعلان پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ بھی لیبیا کی پیروی کرے۔
مصر نے کہا ہے کہ اسرئیل کو بھی اب اپنے تمام جوہری ہتھیاروں کو تلف کر دینا چاہئے جبکہ ایران نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو اب اسرائیل پر زور ڈالنا چاہیے کہ وہ اپنے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ضائع کر دے۔
بحرین اور قطر نے لیبیا کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ اس سے مشرق وسطیٰ کو جوہری، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں سے پاک علاقہ بنانے میں مدد ملے گی۔
اسرائیل نے جوہری اور کیمیائی ہتھیار بنانے کا کبھی اعتراف نہیں کیا تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کے پاس درجنوں کی تعداد میں جوہری اور کیمیائی ہتھیار موجود ہیں۔
مصر کئی سالوں سے اسرائیل پر زور دے رہا ہے کہ اسرائیل کو اپنے وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو تلف کر دینا چاہئے اور جوہری عدم پھیلاؤ کے بارے میں عالمی معاہدوں پر دستخط کر دینے چاہیں تاکہ مشرق وسطی کو محفوظ بنایا جا سکے۔
لیبیا نے کہا کہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو ختم کرنے کا اس کا فیصلہ عوام کی حالت بہتر بنانے اور ملک کی اقتصادی حالت کو سدھارنے کے لیے کیا گیا ہے۔
لیبیا کے ساتھ جوہری اور کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کئے جانے کے سلسلے میں ہونے والے خفیہ مذاکرات کی تفصیلات ابھی جاری کی جا رہی ہیں۔ امریکی حکام نے بتایا کہ برطانوی اور امریکی اداروں کے خفیہ اہلکاروں کو گزشتہ کئی مہینوں سے ہر رات لیبیا کے رہنما کرنل قذافی کے ساتھ خفیہ مذاکرات کے لیے لایا جاتا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لیبیا کے دارالحکومت میں ہونے والے ان مذاکرات میں شرکت کے لیے اہلکاروں کو راستےمیں کئی مرتبہ گاڑیاں تبدیل کرنا پڑتی تھیں تاکہ ان مذاکرات کو خفیہ رکھا جاسکے۔
ان مذاکرات کا آغاز لیبیا کے رہنما نے کیا تھا اور لیبیاکے وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پروگرام کا اقوام متحدہ کے ماہرین کی طرف سے معائنہ کرانے کے لیے تجاویز کی تیاری میں بھی وہ بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔
حکام نے کہا کہ لیبیا نے کچھ ایسی تفصیلات بھی مہیا کی ہیں جن کے بارے میں مغربی ممالک کے خفیہ ادارے ابھی تک بے خبر تھے۔
کچھ اطلاعات کے مطابق برطانوی اور امریکی اہلکاروں کو کرنل قذافی سےمذاکرات میں لیبیا کے حال ہی میں پکڑے جانے والے غیر قانونی ساز و سامان سے بہت مدد ملی تھی۔
یہ سازو سامان امریکہ کی طرف سے گزشتہ ستمبر میں چلائی جانی والی ایک مہم کے دوران پکڑاگیا تھا۔تاہم اس بارے میں کوئی علم نہیں ہو سکا کہ اس ساز و سامان میں کیا تھا اور یہ کہاں سے لایا جارہا تھا۔