’افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے‘

پشاور کے قریب پی اے ایف کے بڈھ بیر کیمپ پر شدت پسندوں کے حملے میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 30 افراد ہلاک جبکہ 29 زخمی ہو گئے تھے

،تصویر کا ذریعہAP

،تصویر کا کیپشنپشاور کے قریب پی اے ایف کے بڈھ بیر کیمپ پر شدت پسندوں کے حملے میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 30 افراد ہلاک جبکہ 29 زخمی ہو گئے تھے

افغان صدر اشرف غنی نے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کو ٹیلی فون کر کے کہا ہے کہ افغانستان کبھی بھی اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان فضائیہ کے بڈھ بیر اڈے پر حملے کے بعدافغان صدر نے وزیر اعظم پاکستان کو فون کیا اور اڈے پر حملے کی مذمت کی۔

صدر غنی نے پاکستان ایئر فورس بیس پر حملے میں سویلین اور فوجی ہلاکتوں پر دلی رنج و غم کا اظہار کیا۔

خیال رہے کہ پشاور کے قریب پی اے ایف کے بڈھ بیر کیمپ پر شدت پسندوں کے حملے میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 30 افراد ہلاک جبکہ 29 زخمی ہو گئے تھے۔

پیر کی صبح پاکستان کی اعلیٰ ترین سول اور فوجی قیادت نے پشاور میں پاکستانی فضائیہ کے کیمپ پر گذشتہ ہفتے ہونے والے حملے کے بارے میں شواہد کا جائزہ لیا جو افغان حکومت کے حوالے کیے جائیں گے۔

وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری سرکاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ اس حملے کے بارے میں اجلاس میں بہت سے شواہد پیش کیے گئے جن میں ان شواہد کو علیحدہ کیا گیا جو افغان حکام کو دیے جائیں گے۔

یاد رہے کہ پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے حملے کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی، لوگوں کی تربیت بھی وہیں ہوئی اور حملہ آور آئے بھی افغانستان سے تھے۔

بعد میں سرکاری حکام نے یہ بھی کہا کہ تحریکِ طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے حملہ آور پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کے راستے پشاور میں داخل ہوئے۔

کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ تاہم تحریک کے ترجمان محمد خراسانی نے پاکستانی فوج کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حملے میں شامل تمام افراد پاکستان ہی میں مقیم تھے اور یہیں سے اس حملے میں شریک ہوئے۔

پاکستان پچھلے سال پشاور کے آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کا الزام بھی افغانستان کے علاقے کنڑ میں روپوش تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ پر عائد کرتا رہا ہے اور اس حملے میں شامل افراد کو سہولیات فراہم کرنے پر بعض افراد کو فوجی عدالت سے سزائیں بھی دی جا چکی ہیں۔