’ملا عمر کی موت کی خبر قابلِ اعتبار ہے، کہاں ہوئی اس کا جائزہ لے رہے ہیں‘

،تصویر کا ذریعہAFP
افغانستان کے صدر کی جانب سے افغان طالبان تحریک کے امیر ملا محمد عمر کے دو برس قبل انتقال کی خبر کو مستند قرار دیے جانے کے بعد امریکہ نے بھی اب اسے ’قابلِ اعتبار‘ قرار دیا ہے۔
افغانستان کی سکیورٹی سروس کے ایک ترجمان نے بدھ کو کہا تھا ملا عمر دو برس قبل پاکستان میں انتقال کر گئے تھے جس کے بعد افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’ملا عمر کی موت کی اطلاعات مستند ہیں۔‘
<link type="page"><caption> ملا محمد عمر زندہ یا مردہ؟</caption><url href="http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/04/150412_mullah_omer_rwa" platform="highweb"/></link>
<link type="page"><caption> ’ملا عمر کمال کی حسِ مزاح رکھتے ہیں‘</caption><url href="http://www.bbc.com/urdu/regional/2015/04/150405_mullah_omer_biography_zs" platform="highweb"/></link>
ماضی میں بھی ملا عمر کی ہلاکت کی متعدد بار خبریں آ چکی ہیں تاہم پہلی بار ان کے ہلاک ہونے کی خبروں کو زیادہ سنجیدگی سے لیا جا رہا تھا۔
سکیورٹی سروس کے ترجمان عبدالحسیب صدیقی نے بی بی سی افغان سروس کو بتایا ہے کہ ملا عمر دو سال پہلے پاکستان میں ایک ہسپتال میں علالت کے باعث انتقال کر گئے تھے۔
افغان صدر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ’انھیں مستند اطلاعات کی بنیاد پر یقین ہے کہ ملا عمر کی موت اپریل 2013 میں پاکستان میں ہو گئی تھی۔‘
افغان طالبان کی جانب اس بارے میں جلد بیان آنے کی توقع ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے تاحال اس بارے میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
وائٹ ہاؤس کے ترجمان ایرک شلٹز نے بدھ کو کہا ہے کہ ملا عمر کے انتقال کر جانے کی اطلاعات ’قابلِ بھروسہ‘ ہیں تاہم انھوں نے افغان حکام کے اس دعوے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ افغان طالبان کے سربراہ کی موت کراچی کے ایک ہسپتال میں ہوئی تھی۔
امریکی صدر کے دفتر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ خفیہ ادارے ان اطلاعات کا جائزہ لے رہے ہیں اور ان کی موت سے منسلک حالات کا تجزیہ کرنے میں مصروف ہیں تاہم وہ فی الحال اس بارے میں مزید کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔
ملا عمر کی ہلاکت کے حوالے سے افغان صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں فریقین سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قیام امن کی کوششوں میں شامل ہو جائیں۔

ملا عمر کے انتقال کی یہ تازہ خبریں ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہیں جب 31 جولائی کو افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان بات چیت کا دوسرا دور متوقع ہے۔
چند دن پہلے ہی عید الفطر کے موقع پر ملا عمر سے منسوب ایک پیغام میں ’افغانستان میں امن کے لیے بات چیت کو جائز‘ قرار دیا گیا تھا تاہم اس میں پاکستان میں افغان حکومت اور طالبان رہنماؤں کے مذاکرات کے پہلے دور کا براہ راست کوئی ذکر نہیں کیا گیا تھا۔
سنہ 2001 میں امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد سے ملا عمر منظر عام پر نہیں آئے تھے اور وہ ذرائع ابلاغ کو بھی انٹرویو یا تصویر دینے سے بھی گریز کرتے تھے۔
گذشتہ کچھ عرصہ سے شدت پسند تنظیموں میں ملا عمر کے زندہ ہونے یا مرنے کے حوالے سے کئی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
بالخصوص عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے سرگرم ہونے اور ابوبکر بغدادی کی جانب سے خلافت کے اعلان کے بعد سے یہ سوالات مزید زور پکڑنے لگے تھے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سنہ 1996 میں ملا عمر کو ’امیر المومنین’ کا خطاب دیا گیا تھا اور امریکی حکام نے ملا عمر کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کی ہوئی تھی۔
<link type="page"><caption> رواں برس اپریل میں افغان طالبان نے اپنے رہنما ملا محمد عمر کی سوانح عمری شائع کی تھی۔ </caption><url href="http://www.bbc.com/urdu/regional/2015/04/150405_mullah_omer_biography_zs" platform="highweb"/></link>

،تصویر کا ذریعہAFP
<link type="page"><caption> </caption><url href="http://www.bbc.com/urdu/regional/2015/04/150405_mullah_omer_biography_zs" platform="highweb"/></link>
اس سوانح عمری کے مطابق ملا عمر کی پیدائش 1960 میں ملک کے جنوبی صوبے قندھار کے ضلع خاكریز کے چاہِ ہمت نامی گاؤں میں ہوئی۔
تحریر میں طالبان اپنے سپریم لیڈر کا ذکر ملا محمد عمر ’مجاہد‘ کے نام سے کرتے ہیں اور اس میں کہا گیا ہے کہ وہ ہوتك قبیلے کی شاخ تومزئي سے تھے۔
مزید کہا گیا ہے کہ ان کے والد مولوی غلام نبی ایک ’معزز عالم اور سماجی شخصیت‘ تھے اور ملا عمر کی پیدائش کے پانچ سال بعد ہی وہ وفات پا گئے تھے جس کے بعد ان کا خاندان صوبہ ارزگان منتقل ہوگیا تھا۔
اس سوانح میں کہا گیا ہے کہ سوویت فوجوں کے افغانستان پر حملے کے بعد ملا عمر ’مذہبی ذمہ داری کو نبھانے کے لیے‘ مدرسے میں جاری تعلیم چھوڑ کر جہادی بن گئے۔
تحریر کے مطابق 1983 سے 1991 کے درمیان فوجی کارروائیوں میں روسی فوجیوں سے لڑتے ہوئے ملا عمر چار بار زخمی ہوئے اور ان کی دائیں آنکھ بھی ضائع ہوگئی۔
1994 میں ملا عمر نے جنگی سرداروں کے درمیان ’قبائلی لڑائی‘ سے نمٹنے کے لیے مجاہدین کی قیادت کی۔اس کے بعد 1996 میں انہیں ’امیر المومنين‘ کا خطاب دیا گیا اور وہ طالبان کے سپریم لیڈر بن گئے۔







