چین کے چڑیا گھر میں شیرکو گولی ماری گئی

چینی میڈیا میں یہ بات نہیں بتائی گئی ہے کہ حملے کے بعد شیر اپنے باڑے سے نکلنے میں کس طرح کامیاب ہوا

،تصویر کا ذریعہGetty

،تصویر کا کیپشنچینی میڈیا میں یہ بات نہیں بتائی گئی ہے کہ حملے کے بعد شیر اپنے باڑے سے نکلنے میں کس طرح کامیاب ہوا

چین کے ایک چڑیا گھر میں ایک شیر کو اپنے رکھوالے کو مارنے اور اپنے احاطے سے بھاگنے کی وجہ سے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔

یہ واقعہ اتوار کو چین کی مشرقی ریاست شانڈونگ کے ٹائیان ٹائگر ماؤنٹین پارک میں پیش آیا۔

حکام کا کہنا ہے کہ جب شیر کے احاطے کی صفائی کرنے والے 65 سالہ ملازم صفائی کررہے تھے تو شیر نے اس کے شانے کو دبوچ لیا جو بعد میں زخموں کی تاب نہ لا سکے۔

اس حملے کے بعد شیر چڑیا گھر میں پولیس کی گولی سے ہلاک ہونے سے قبل تقریباً ایک گھنٹے تک کھلا گھومتا رہا۔

چینی میڈیا میں یہ بات نہیں بتائی گئی ہے کہ حملے کے بعد شیر اپنے باڑے سے نکلنے میں کس طرح کامیاب ہوا۔

حکام نے پارک کے دروازے پر سٹیل کی رکاوٹیں کھڑی کردیں جبکہ چڑیا گھر کے سٹاف اور صبح کو سوئمنگ کے لیے آنے والے افراد کو چڑیا گھر کے باہر کر دیا گيا۔

بیجنگ یوتھ ڈیلی اخبار کے مطابق پولیس کے ایک ترجمان نے کہا کہ انھوں نے مقامی پولیس اور سپیشل ٹاسک فورس بلا لی تھی۔

بہت سے لوگوں نے چین میں چڑیا گھر کی خراب دیکھ ریکھ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے

،تصویر کا ذریعہXINHUA

،تصویر کا کیپشنبہت سے لوگوں نے چین میں چڑیا گھر کی خراب دیکھ ریکھ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے

انھوں نے کہا کہ وہ شیر کو ایک دیوار تک پہنچانے میں کامیاب رہے اور پھر پارک میں آنے والے لوگوں کی حفاظت کے مد نظر اسے گولی مار دی گئی۔

اخبار کے ایک رپورٹر نے بتایا کہ مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے کے بعد انھوں نے ایک گولی چلنے کی آواز سنی پھر دس منٹ بعد ’گولیوں کی مسلسل آوازیں آتی رہیں۔‘

پارک کو دوپہر کے بعد لوگوں کے لیے پھر سے کھول دیا گيا۔ اس واقعہ پر چین کے سوشل نٹ ورک پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ بہت سے افراد کا خیال ہے کہ کیا شیر کا ہلاک کیا جانا ضروری تھا جبکہ بعض لوگوں نے چڑیا گھر میں خراب حفاظتی انتظامات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

ایک شخص نے ویئیبو پر لکھا: ’انسان شیروں کی تندی و تیزی کو پسند کرتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے ان کی آزادی کھو گئی ہے، انھیں بھوکا اور خراب حالات میں رکھا جاتا ہے اور اب اس نے اپنی جان گنوا دی ہے۔‘