’انٹرنیٹ ہر گوشے کی آواز ہے کیسے بند کروگے؟‘

انٹرنیٹ اب شہر سے دیہی علاقوں تک اپنی رسائی رکھتا ہے اور اب یہ خاص و عام کی پہنچ میں ہے۔

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشنانٹرنیٹ اب شہر سے دیہی علاقوں تک اپنی رسائی رکھتا ہے اور اب یہ خاص و عام کی پہنچ میں ہے۔
    • مصنف, شالو یادو
    • عہدہ, بی بی سی، دہلی

بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی قانون (آئی ٹی ایکٹ) کے آرٹیکل 66A کے متعلق سپریم کورٹ میں بہت سی درخواستیں پڑی ہوئی ہیں۔

آرٹیکل 66A کے تحت کسی دوسرے شخص کو قابل اعتراض لگنے والی کوئی بھی معلومات کمپیوٹر یا موبائل فون سے بھیجنا قابل سزا جرم ہے۔

سپریم کورٹ میں دائر بعض درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ یہ درخواستیں اظہار کی آزادی کے خلاف ہیں جو بھارتی آئین کے مطابق ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔

اس بحث کے درمیان حکومت نے اپنا موقف سپریم کورٹ کے سامنے رکھا ہے۔ حکومت نے عدالت سے کہا کہ بھارت میں سائبر کے شعبے میں کچھ پابندیاں ہونی ضروری ہیں کیونکہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کا استعمال کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت میں کہا: ’اخباروں اور ٹی وی کے علاوہ اب انٹرنیٹ پر بھی بہت سے ادارے کام کر رہے ہیں۔ ٹی وی پر آنے والے پروگراموں اور فلموں کی سینسر شپ ہوتی ہے، لیکن انٹرنیٹ پر آنے والی چیزیں کسی ادارے سے نہیں بلکہ لوگوں کے مخصوص خیالات سے متاثر ہوتے ہیں۔‘

بھارت کے نوجوانوں میں موبائل انٹرنیٹ کا رواج تیزی سے بڑھ رہا ہے

،تصویر کا ذریعہAgencies

،تصویر کا کیپشنبھارت کے نوجوانوں میں موبائل انٹرنیٹ کا رواج تیزی سے بڑھ رہا ہے

لیکن آج کے ہندوستان کی سچائی یہ بھی ہے کہ لوگ اپنے اظہار کی آزادی کا استعمال کرنے کے لیے صرف ٹی وی اور پرنٹ میڈیا کے ذرائع کا استعمال نہیں کر رہے ہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ لوگ انٹرنیٹ کے ذریعہ اپنی بات اور خیالات سامنے رکھ رہے ہیں۔

آج کل چند میڈیا پلیٹ فارمز صرف انٹرنیٹ پر ہی دستیاب ہیں۔ یہاں تک کہ بعض ویب سائٹس پر تو صحافت اور کسی معاملے پر سرگرم ہونے کے درمیان کا فرق بتانا مشکل ہے۔ تو کیا حکومت ان پر بھی سینسر شپ کی لگام لگا پائے گي؟

ڈیجیٹل امپاورمنٹ فاؤنڈیشن (ڈی ای ایف) کے بانی اسامہ منظر نے بی بی سی کو بتایا: ’وہ گئے زمانے کی بات ہے جب آپ مائیک، میڈیا یا ریڈیو کے بغیر اپنی آواز اٹھانے کی بات سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ جن لوگوں کی آواز سینکڑوں سالوں سے نہیں سنی جا رہی تھی، اب انھیں انٹرنیٹ پر اپنی آواز اٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔ حکومت کو اسے ایک ثقافتی تبدیلی کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے، نہ کہ ایک کنٹرولر کے طور پر۔ لوگوں کو اپنی غصہ نکالنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔‘

انھوں نے سوال اٹھایا کہ ’ایسے وقت میں جب انٹرنیٹ ہر گوشے کی آواز بن گیا ہے، حکومت کس کس گوشے کی پہریداری کرے گی؟‘

حکومت انٹرنیٹ پر قانون لاکر اسے کنٹرول کرنا چاہتی ہے
،تصویر کا کیپشنحکومت انٹرنیٹ پر قانون لاکر اسے کنٹرول کرنا چاہتی ہے

سابقہ یو پی اے حکومت کے دوران مرکزی مواصلات اور ٹیکنالوجی کے وزیر کپل سبل نے جب انٹرنیٹ سینسر شپ کی حمایت کی تھی تو ان کی مخالفت کے لیے نریندر مودی نے اپنے ٹوئٹر پروفائل کی تصویر تبدیل کر کے ایک سیاہ رنگ کا پوسٹر لگا لیا تھا۔

سكرول نام کی ویب سائٹ میں کام کرنے والے صحافی شوم وج نے بی بی سی سے کہا: ’اس وقت ارون جیٹلی نے راجیہ سبھا میں کہا تھا کہ آرٹیکل 66A اندرا گاندھی کے ایمرجنسی قانون کی طرح ہے۔ نریندر مودی کی حکومت اب اسی قانون کی حمایت کر رہی ہے، جس کی انھوں نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے سخت تنقید کی تھی۔ نریندر مودی تو خود کو سوشل میڈیا کا چیمپیئن کہتے ہیں اور ڈیجیٹل انڈیا کی بات کرتے ہیں۔ ان کی حکومت ایسا رخ کیوں اپنا رہی ہے؟‘

شوم وج کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 66A کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور آج کے ہندوستان میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان کے مطابق، حکومت صرف اپنے کنٹرول کو یقینی بنانے کے لیے اس قانون کا دفاع کر رہی ہے۔

انھوں نے کہا: ’سپیم پر روک لگانے کے لیے آرٹیکل 66A کو لایا گیا تھا لیکن آج تک کسی بھی سپیمر کے خلاف کوئی کیس درج نہیں ہوا ہے۔ البتہ ان لوگوں کے خلاف کیس ضرور درج ہوا جنھوں نے سیاسی جماعتوں یا رہنماؤں کے خلاف اپنی باتیں ركھيں۔ کیا اس آرٹیکل کو لانے کا یہی مقصد تھا؟‘

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی خود کو سوشل میڈیا کا چیمپیئن کہتے ہیں

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنبھارتی وزیر اعظم نریندر مودی خود کو سوشل میڈیا کا چیمپیئن کہتے ہیں

لیکن اسامہ منظر اور شوم وج کے خیالات سے ہر کوئی متفق نہیں ہے۔

سائبر قانون کے علمبردار اور وکیل پون دگگل کا کہنا ہے کہ معاشرے میں ایک نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے ایسا قانون ضروری ہے۔

بی بی سی سے بات چیت میں انھوں نے کہا: ’آپ انٹرنیٹ صحافت میں ہیں، اس کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ آپ کچھ بھی لکھیں۔ میڈیا ویب سائٹوں کو بھی اس قانون کے تحت کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے۔‘

لیکن پھر قابل اعتراض لفظ کی تعریف آخر کیا ہے؟ یہ بھی ممکن ہے کہ جو بات ایک شہری کو قابل اعتراض لگے وہ دوسرے کے نزدیک اظہار کی آزادی ہو۔ فی الحال سپریم کورٹ نے اس مسئلے پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔