بھارت میں اقلیتیں نشانے پر کیوں؟

23 دسمبر کے حملے کے بعد بہت سے قبائلی پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہو گئے ہیں
،تصویر کا کیپشن23 دسمبر کے حملے کے بعد بہت سے قبائلی پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہو گئے ہیں

بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں عیسائی قبائلیوں پر حملے اور وسطی ریاست مدھیہ پردیش میں تبدیلیِ مذہب کے نام پر کیے جانے والے حملے کیا کہتے ہیں؟

بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں گذشتہ ماہ 23 دسمبر کو ہونے والے ایک حملے میں نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ کے مشتبہ شدت پسندوں نے کوکراجھار اور سونت پور اضلاع میں کئی گاؤں میں حملے کرکے تقریباً 70 قبائلیوں کا قتل کر دیا تھا۔ جوابی کارروائی میں 16 بوڈو شدت پسند بھی مارے گئے تھے۔

صحافی امیتابھ بھٹاسالی کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے اس بار وہاں کرسمس کا تہوار نہیں منایا گيا۔

انھوں نے آسام اور مغربی بنگال کی سرحد پر واقع باروبيشا میں قومی شاہراہ سے ملحق ایسے سینکڑوں گھر اور سکول دیکھے جن پر گولیوں کے نشان تھے۔

چارلس مورمو کے گھر پرگولیوں کے ان گنت نشان تھے۔ ان کی بہو اینستھيا اور اس کا تین سالہ بیٹا بونیپاس گولیوں سے زخمی ہوئے تھے اور اب بھی موت سے جنگ لڑ رہے ہیں۔

پولیس آسام میں بوڈو شدت پسندوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے اور وہاں مسلسل فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے ہیں

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنپولیس آسام میں بوڈو شدت پسندوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے اور وہاں مسلسل فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے ہیں

چارلس کے گھر کے ٹھیک سامنے سوم ہنسدا کا مکان ہے۔ ان کے بیٹے سٹیفن شدت پسندوں کی گولیوں سے بچنے کے لیے کچن کی طرف بھاگے تھے لیکن سٹیفن اور ان کی ماں کی گولیاں لگنے سے موت ہو گئی۔ ہنسدا نے حوض میں کود کر کسی طرح اپنی جان بچائی۔

حالیہ تشدد کے بعد ہزاروں کی تعداد میں قبائلی پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بوڈ یہاں برتری کی جنگ میں منہمک ہیں۔ کوکراجھار ضلع بوڈولینڈ خودمختار علاقے میں پڑتا ہے۔ یہ علاقے بوڈو قبائل زیر انتظام ہیں۔

اس علاقے میں 70 فیصد آبادی غیر بوڈو کی ہے، جس میں بڑی تعداد میں قبائلی اور بنگالی بولنے والے مسلمان شامل ہیں۔

برطانوی عہد میں سنتھال بغاوت کے بعد قبائلیوں کو وسطی ہندوستان سے وہاں لایا گیا تھا جن میں زیادہ تر عیسائی تھے۔

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ آسام کے قبائلی ’درج فہرست قبائل‘ میں شامل نہیں ہیں۔ جبکہ وسط بھارت میں رہنے والے کے خاندان کے افراد ’درج فہرست قبائل‘ میں شامل ہیں اور حکومت کی جانب سے ملنے والی مراعات انھیں حاصل ہیں۔

مدھیہ پردیش میں عیسائیوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد حملوں میں اضافہ ہوا ہے

،تصویر کا ذریعہTHINKSTOCK

،تصویر کا کیپشنمدھیہ پردیش میں عیسائیوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد حملوں میں اضافہ ہوا ہے

ادھر مسیحی برادری کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ گذشتہ کچھ وقت سے وہاں ان کی کمیونٹی پر حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

کرسمس کے دوران بھی عیسائی ہندو تنظیموں کے حملوں کے شکار ہوئے ہیں۔

کرن بھدولے کو سنہ 2007 کا وہ دن یاد ہے جب وہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ كھرگون ضلع کے ڈوگل چيچلي گاؤں کے ایک گھر میں عبادت کروانے گئے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد وہ لوگ عبادت کے لیے تیار ہو ہی رہے تھے کہ ہندو تنظیموں سے وابستہ لوگوں نے گھر پر حملہ کر دیا۔

پولیس نے بھدولے کو مذہب تبدیل کرانے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔

ہندو تنظیموں کا الزام ہے کہ وہ لوگ اس طرح کی عبادات منعقد کر کے لوگوں کو پیسے دے کر عیسائی بنا رہے ہیں۔

بھارت میں پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے عیسائیوں نے اپنے خلاف ہونے والے حملے پر مظاہرہ کیا ہے
،تصویر کا کیپشنبھارت میں پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے عیسائیوں نے اپنے خلاف ہونے والے حملے پر مظاہرہ کیا ہے

کرن بھدولے نے بی بی سی کو بتایا: ’تبدیلیِ مذہب کے معاملے میں اگر مقدمہ درج ہو جائے تو انسان خود اپنے مذہب پر بھی عمل کرنے سے ڈرتا ہے۔ کب وہ عبادت کر رہا ہو اور پولیس ہندو تنظیموں کے ساتھ آ کر گرفتار کر لے۔‘

وہ کہتے ہیں: ’ہم لوگ ہمیشہ نشانے پر رہتے ہیں۔ کبھی بھی ہم پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔ الزام یہی ہوتا ہے کہ ہم نے پیسے دے کر لوگوں کو عیسائی بنایا ہے۔ ہمیں پریشان کرنے کا یہ سب سے آسان ہتھیار ہے۔‘

سنہ 2014 میں کرسمس والے ہفتے کے دوران كھرگون، کھنڈوا اور برہانپور اضلاع میں تبدیلی مذہب کا الزام لگا کر عیسائی کمیونٹی پر حملہ کیا گیا۔

کھنڈوا ضلع میں 16 لوگوں کوتبدلی مذہب کے الزام میں گرفتار کیا گیا جن میں خواتین اور مردوں کے ساتھ ان کے چھوٹے بچے بھی شامل ہیں۔

بھدولے کے مطابق پولیس عام طور پر ہندو تنظیموں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔

بھارت کی سب سے بڑی آبادی والی ریاست اتر پردیش میں بھی تبدیلیِ مذہب کے نام پر سوال سر اٹھا رہے ہیں

،تصویر کا ذریعہJaiprakash Baghel

،تصویر کا کیپشنبھارت کی سب سے بڑی آبادی والی ریاست اتر پردیش میں بھی تبدیلیِ مذہب کے نام پر سوال سر اٹھا رہے ہیں

لیکن مدھیہ پردیش کے ڈائریکٹر جنرل پولیس سریندر سنگھ اس کے برعکس کہتے ہیں: ’اگر میرے پاس کوئی شکایت آئے گی تو میں اس کی جانچ ضرور كرواؤں گا۔ پولیس آخر کسی ایک کے حق میں کیوں کھڑی ہو گی؟‘

منسٹر آف جيسس کرائسٹ تنظیم کے شیبو تھامس الزام لگاتے ہیں کہ مدھیہ پردیش میں عیسائی کمیونٹی پر حملے ریاست میں بی جے پی حکومت کے بننے کے ساتھ ہی تیز ہو گئے تھے لیکن مرکز میں مودی حکومت کے آنے کے بعد یہ بڑھ گئے ہیں۔

مدھیہ پردیش عیسائی ایسوسی ایشن کی صدر اندرا ايگر کہتی ہیں کہ یہ وقت عیسائیوں کے لئے بہت خراب ہے۔

جہاں تک آسام کا تعلق ہے تو وہاں کبھی مرنے والے بنگالی مسلمان ہوتے ہیں تو کبھی قبائلی یعنی عیسائی۔ تاہم وہاں مسلسل فسادات کی وجہ یہی بتائي جاتی ہے کہ اقلیتی ہونے کے باوجود بوڈو اپنا سیاسی تسلط برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔