مذہب پر یقین نہ رکھنا بھی تو بنیادی حق!

،تصویر کا ذریعہAFP
- مصنف, شکیل اختر
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
اس وقت بھارت میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ قومی ٹیلی ویژن پر آر ایس ایس کے سربراہ کی سالانہ تقریر کو براہ راست نشر کیا جانا صحیح تھا یا نہیں۔
آئین کے مطابق بھارت ایک سیکولر جمہوریت ہے جس میں ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہے اور ہر مذہب کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔
آر ایس ایس چونکہ ایک ہندو تنظیم ہے اور بھارت کو ایک ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا اس کا نصب العین ہے اس لیے حزب اختلاف کی کئی جماعتوں اور دانشوروں نے تنظیم کے سربراہ کی تقریر نشر کیے جانے پر شدید اعتراض کیا ہے۔
گذشتہ مئی میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک دو روش پر گامزن ہے۔ ایک روش وہ ہے جس کی قیادت وزیراعظم نریندر مودی کر رہے ہیں۔ اس روش کا ایجنڈا ترقی اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا نعرہ ہے۔
مودی کے مخالفین اور بہت سے تجزیہ کار مودی کے ہر قدم اور لفظ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں ۔
مودی پر انھیں اعتبار نہیں ہے کیونکہ وہ مودی کے ماضی کے پس منظر میں انھیں ایک ہندوئیت پرست رہنما تصور کرتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کو ابھی تک مودی کو وزیراعظم کے اوتار میں کوئی قابل گرفت پہلو ہاتھ نہیں لگ سکا ہے۔
دوسری جانب مودی کی پارٹی بی جے پی اور اس کی محاذی تنظیمیں ہیں جو کئی ریاستوں میں ہندوئیت کے اپنے ایجنڈے پر کھل کر سامنے آ گئی ہیں۔
وسطی ریاست مدھیہ پردیش سے کئی ہفتوں سے مذہبی اقلیتوں پر ہندو تنطیموں کے حملوں کی مسلسل خبریں آ رہی ہیں۔ کچھ دنوں پہلے وہاں ایک چرچ جلا دیا گیا تھا۔ گذشتہ دنوں پولیس نے ہندو تنطیموں کے دباؤ میں ایک ہندو لڑکی کی ایک عیسائی لڑکے سے شادی کالعدم قرار دے دی۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ ایک دلت خاندان نے اسلام مذہب اختیار کر لیا تھا۔ پہلے ان کی گرفتاری ہو ئی بعد میں ان مولویوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے جنھوں نے انھیں کلمہ پڑھایا تھا۔
اتر پردیش میں مظفر نگر کے بعد اب بی جے مراد آباد کے کانٹھ خطے کے اپنے ان کارکنوں کی عزت افزائی کے لیے ایک جلسے کا اہتمام کر ہی ہے جن پر فسادات بھڑکانے کا الزام ہے۔

،تصویر کا ذریعہAFP
بی جے پی اور ہندو تنظمیوں کی ان سرگرمیوں اور اقدامات سے معاشرے میں تو انتشار پیدا ہی ہو رہا ہے، ان سے جمہوری اداروں کو بھی زک پہنچ رہی ہے۔ ان ریاستوں میں صورتحال زیادہ پیچیدہ ہے جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے۔
ایک طرف ہندو تنظیمیں زندگی کے ہر پہلو پر مذہب کا غلبہ مسلط کرنا چاتی ہیں تو تصویر کا دوسرا رخ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ممبئی ہائی کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں کہا ہے کہ حکومت کا کوئی بھی ادارہ کسی بھی فرد کو اپنے مذہب کے بارے میں بتانے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا۔
عدالت نے اپنے مشاہدے میں کہا کہ مذہب اور ضمیر کی آزادی کے ضمن میں کسی مذہب میں یقین نہ کرنے کا حق بھی شامل ہے۔ ریاست ایک سیکولر مملکت ہے اور اس کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے۔ اس لیے ریاست کا کوئی بھی ادارہ کسی شہری کو مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی مذہبی وابستگی یا ناوابستگی کی وضاحت کرے۔

،تصویر کا ذریعہPTI
موجودہ حالات میں جب سیکولرزم خود زبردست دباؤ میں ہے عدالت کا یہ فیصلہ انفرادی آزادی اور بنیادی حقوق کے تحقظ کا ضامن ہے۔
بھارت کی سیاست، معاشرہ اور اقتصادی نظام اس وقت ایک ایسے مرحلے سے گزر رہے ہیں جس کے مستقبل کے بارے میں کوئی واضح پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔موجودہ دور میں ہر تبدیلی اقتصادی پہلوؤں پر مرکوز ہوتی ہے اور کوئی بھی پہلو جو اقتصادی ترقی کی راہ میں حائل ہوگا وہ ماضی کا حصہ بن جائے گا۔
اقتصادی ترقی اور انفرادی آزادی تنگ نظری کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ دنیا کے درجنوں ممالک اپنی تنگ نظری اور غیر جمہوری نظام کےسبب اس وقت انتشار اور افراتفری کا شکار ہیں۔
اس لیے وہ تمام عناصر، نظریے اور تصورات جو جمہوری اصولوں اور انفرادی حقوق سے متصادم ہوں گے ان کی شکست لازمی ہے۔







