اس کا جواب اترپردیش کے پاس نہیں

- مصنف, راجیش پریہ درشی
- عہدہ, ڈیجٹل ایڈیٹر، بی بی سی ہندی
بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش ایک بار پھر سے غلط وجوہات کے سبب موضوع بحث ہے۔ کبیر، ملک محمد جائسي، رسكھان کی محبت و عقیدت سے لبریز سرزمین پر پھر سے فرقہ وارانہ فسادات بھڑک رہے ہیں۔
جسے گنگا جمنی تہذیب کہتے ہیں، اسی گنگا جمنا کا دوابہ سلگ رہا ہے۔ شاہ ہارون پور، جسے آج سہارنپور کے نام سے جانا جاتا ہے، 14 ویں صدی میں صوفی بزرگ شاہ ہارون چشتی کا آستانہ تھا، وہ محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیتے تھے۔
سہارنپور کے جنوب میں، شاعر جگر کا شہر، پیتل کی کاریگری کا شہر، شاہ جہاں کے بیٹے مراد بخش کے نام پر بسایا گیا مراد آباد بھی جھلس رہا ہے۔ ہرچند کہ مظفر نگر کے زخم ابھی بھرے نہیں ہیں۔
اتر پردیش جیسی ریاست بھارت میں دوسری نہیں جس کے ہر شہر اور قصبے کی الگ شناخت ہے۔
علی گڑھ کے تالے، كاكوري کے کباب، مراد آباد کی پیتل کی کاریگری، فیروز آباد کی چوڑیاں، خرجہ کی پٹري، متھرا کے پیڑے، بنارس کی ساڑھیاں۔۔۔یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ تاریخی مندر، مساجد اور درگاہیں چپے چپے پر موجود ہیں۔

،تصویر کا ذریعہAP
ملک کو کئی وزیر اعظم دینے والا اترپردیش کتنا اہم ہے اس کو سمجھے بغیر نریندر مودی بھی وزیر اعظم نہیں بن سکتے تھے۔
رقص و آواز، گیت سنگیت، کھانے پینے، دستكاري، شاعری و قووالي، مذہبی تصوارت سے لے کر سیاست تک، زندگی کا وہ کون سا حصہ ہے جس پر اترپردیش کی گنگا جمنی تہذیب کی چھاپ نہ ہو؟ شمالی بھارت کی ثقافت کا قلب اگر کوئی ہے تو وہ اتر پردیش ہے۔
جب کوئی سماج وادی، سیکولر، بائیں بازو اور ہندو قوم پرست نہیں تھا، تب بھی یہ ثقافت تھی۔ گنگا جمنی تہذیب کا مطلب ہوتا ہے مخلوط اور مشترکہ ثقافت۔ ایک صاحب پوچھ بیٹھے کہ گنگا ہمارا مقدس دریا ہے، جمنا بھی ہے، کیا سوچ کر جمنا کو آپ نے مسلمانوں کے اکاؤنٹ میں ڈال دیا؟
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اس کا جواب دینے کے بجائے مسكرانا ہی بہتر ہے!
اودھ کے نواب واجد علی شاہ نے موسم بہار کے مہینے میں ورنداون میں بھگوان کرشن کے مجسمے کو سجانے کے لیے لاکھوں کے نذرانے بھیجے تھے، مہارانی اہلیا بائی نے کپڑے بننے والے ہزاروں مسلم جلاہوں کو تحفظ فراہم کیا۔ بنارس میں ساڑھی کا کاروبار پھلا پھولا، انھوں نے کاشی وشوناتھ مندر کی از سرنو تعمیر بھی کروائی۔

،تصویر کا ذریعہBBC World Service
تلسی داس نے بڑے بڑے پنڈتوں کی تنقید سے افسردہ خاطر ہو کر کہا تھا ’مانگ کے كھائبو، مسیت پہ سوئبو‘ یعنی مانگ کے کھاؤں گا اور مسجد میں سوؤں گا۔ مسجد میں سونے کی بات کرنے والے تلسی داس رام کو ’غریب نواز‘ کہتے ہیں جو بھارت میں خواجہ معین الدین چشتی کو کہا جاتا ہے۔
مسلمان بادشاہوں کے درباری ہندو تھے اور ہندو راجاؤں کے سپہ سالار مسلمان۔ ترک اور افغان۔ سب اپنے اپنے مذہب پر عمل پیرا رہتے اور دوسرے کی راہ میں نہیں آتے تھے۔
یہ سب نہ تو کسی پولیٹکل كریكٹنس کے تحت تھا، نہ خود کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے، نہ ہی کسی خاص طبقے کو خوش کرنے کے لیے۔ یہ زندگی جینے کا ڈھنگ تھا، ایک مشترکہ طریقہ جو اتر پردیش نے سب کو سکھایا۔

،تصویر کا ذریعہAP
فیض آباد کے كھڑاون اور کمنڈل بنانے والے مسلمان، تازیہ اٹھانے والے ہندو۔ یہ عجیب الخلقت لوگ یہیں بستے، ایک سہل اور مشترکہ معاشرہ میں چلتے پھرتے، ناچتےگاتے، کھاتے کماتے۔ یہ گذشتہ تقریبا پانچ سو سال سے اسی طرح جیتے آئے ہیں، لیکن گذشتہ پچاس ساٹھ سال کی سیاست کا شکار ہو کر بكھرتے جا رہے ہیں۔
اتر پردیش کا جتنا اثر ہماری مشترکہ وراثت اور ثقافت پر ہے، اس کی شکست ور ریخت کا اثر بھی پورے ملک پر ہوگا۔ سہارنپور، مراد آباد اور مظفرنگر جیسے واقعات رونما نہ ہوں اس کا کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں اتر پردیش فی الحال نروتر پردیش (لاجواب) ہے۔







