دھوتی کے خلاف ’آمریت‘ نامنظور

،تصویر کا ذریعہPTI

بھارت کی جنوبی ریاست تمل ناڈو میں ہائی کورٹ کے ایک جج اور دو سینیئر وکلا کو دھوتی پہننے کی وجہ سے ایک پرائیویٹ کلب میں داخل ہونے سے روکنے پر ریاست کے سینیئر سیاست دانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ پرائیویٹ کلبوں کا ڈریس کوڈ تبدیل کر دیا جائے۔

مشہور بزرگ سیاست دان ایم کروناندھی کا کہنا تھا کہ دھوتی تمل ناڈو کی تہذیب کی علامت ہے۔

واضح رہے کہ بھارت بھر میں ایسے بے شمار کلب ہیں جہاں برطانوی راج کے زمانے سے لباس کی پابندی کی جاتی ہے اور ایسے افراد کو ان کلبوں میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا جنھوں نے پتلون اور بند جوتے نہ پہن رکھے ہوں۔

چند دن قبل مدراس ہائی کورٹ کے ایک جج کو تمل ناڈو کرکٹ ایسوسی ایشن کلب میں اس وقت داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا جب وہ ہائی کورٹ کے دو وکلا کے ساتھ دھوتیاں پہنے ہوئے کلب پہنچے۔

اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تمل ناڈو کی وزیرِاعلیٰ جے للیتا نے بدھ کو ریاستی اسمبلی کے ارکان سے وعدہ کیا کہ اسمبلی کے جاری اجلاس میں نیا قانون لایا جائے گا تاکہ اس غیر آئینی روایت کو ختم کر دیا جائے۔ جے للیتا نے مزید کہا کہ انھوں نے سوسائٹیوں اور کلبوں کے رجسٹراروں کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ فوراً تمل ناڈو کرکٹ ایسوسی ایشن کلب کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس بھجوا دیں۔

وزیِر اعلیٰ نے ٹی این سی اے کی جانب سے دھوتی میں ملبوس جج کو کلب میں داخلے نہ ہونے دینے کی حرکت کو ’پوشاکی آمریت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر آئندہ کلبوں نے یہی وطیرہ جاری رکھا تو ان کے اجازت نامے منسوخ کر دیے جائیں گے۔

تمل ناڈو اسمبلی کے قاعدہ نمبر 110 کے تحت ’از خود بیان‘ دیتے ہوئے جیا للیتا کا کہنا تھا کہ اگرچہ مذکورہ کلب کے ضوابط میں ایسی کوئی بات نہیں لکھی ہوئی کہ دھوتی والا شخص وہاں داخل نہیں ہو سکتا، لیکن 11 جولائی کو اس کے باوجود کو وہ وہاں مدعو تھے، مدراس ہائی کورٹ کے ایک جج کو کلب کی عمارت میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔

جے للیتا کے بقول 11 جولائی کو جو ہُوا وہ ملک کے آئین، جمہوری روایات، انفرادی حقوق اور تمل ناڈو کی تہذیب، سب کے خلاف تھا۔ وزیِر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ انھیں حیرت اور مایوسی ہے کہ آزادی کے 67 برس بعد بھی بھارت میں اس قسم کے واقعات ہو رہے ہیں۔

اس موقعے پر جے للیتا نےگذشتہ حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ جب اُن کے دور میں اس قسم کے دو واقعات ہوئے تو ڈی ایم کے کی حکومت نے کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا۔