’بھارتی ٹیم کی ہار سے ہندو طلبہ مشتعل ہو گئے‘

ہار کے بعد ہندو طلبہ نے کشمیری طلبہ کے خلاف اشتعال انگیز نعرہ بازی شروع کر دی

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشنہار کے بعد ہندو طلبہ نے کشمیری طلبہ کے خلاف اشتعال انگیز نعرہ بازی شروع کر دی

اترپردیش کے میرٹھ شہر میں واقع سوامی وویک آنند سبھارتی یونیورسٹی سے نکالے جانے والے کشمیری طلبہ کا کہنا ہے کہ ہندو طلبہ بھارتی ٹیم کی ہار سے مشتعل ہو گئے اور انھوں نے کشمیری طلبہ کو دہشت گرد قرار دے کر انھیں یونیورسٹی سے نکال دینے کا مطالبہ شروع کر دیا۔

یونیورسٹی سے نکلے جانے والے 60 سے زائد کشمیری طلبہ میں سے بیشتر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اپنے گھروں پر خیریت سے پہنچ گئے ہیں۔

گھر واپس پہنچنے پر ان طلبہ نے اس واقعے کی جو تفصیلات بیان کی ہیں وہ اس کہانی سے بالکل مختلف ہیں جو بھارتی ذرائع ابلاغ میں یونیورسٹی کے حکام کے حوالے سے اب تک شائع کی گئی ہیں۔

یونیورسٹی کے حکام کا اصرار ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان یکم مارچ کو ہونے والے ایشیا کپ ٹورنامنٹ کے دوران پاکستان کی جیت کے بعد کیمپس میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اسی کے باعث کشمیریوں کو ’تاحکمِ ثانی‘ ہوسٹل چھوڑ کر گھر جانے کو کہا گیا ہے۔

ان کشمیری طلبہ پر الزام ہے کہ انھوں نے پاکستانی ٹیم کی فتح کے بعد بھارت مخالف نعرے بازی کی اور آپس میں مٹھائی تقسیم کی۔ لیکن کشمیر پہنچنے پر ان طلبہ نے اپنی ’جلاوطنی‘ کی جو کہانی بیان کی ہے، اس کے مطابق بھارتی ٹیم کی پوزیشن کمزور ہوتے ہی ہندو طلبہ نے اشتعال انگیز نعرے بازی شروع کر دی اور کشمیریوں کو دہشت گرد کہہ کر انہیں یونیورسٹی سے نکالنے کا مطالبہ کرنے لگے۔

کشمیری طلبہ پر بغاوت کا مقدمہ دائر کر لیا گیا ہے

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنکشمیری طلبہ پر بغاوت کا مقدمہ دائر کر لیا گیا ہے

بانڈی پورہ کے بلال احمد اس یونیورسٹی میں بی ٹیک کی ڈگری کے لیے گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے: ’سب لوگ باہر ٹی وی پر میچ دیکھ رہے تھے۔ آخری اووروں کے دوران جب ہوسٹل کے وارڈن نے ہندو طلبہ کی شرارتوں کا مشاہدہ کیا تو انھوں نے ٹی وی بند کرنا چاہا، لیکن طلبہ نے ٹی وی پر قبضہ جما لیا۔ بعد میں انھوں نے کشمیریوں پر کُرسیاں پھینکیں، گالیاں دیں اور ہمیں پاکستانی دہشت گرد کہا۔ لیکن ہمارے سینئرز ہمیں ضبط سے کام لینے کی تلقین کرتے رہے۔‘

بلال کا کہنا ہے کہ ہندو طلبہ رات بھر ہوسٹل پر پتھراؤ کرتے رہے، اور دوسرے روز حکام نے 60 سے زائد کشمیری طلبہ کو تین روز تک یونیورسٹی سے معطل کیے جانے کا نوٹس مشتہر کر دیا۔

بارہ مولہ کے محمد مقبول کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا یونیورسٹی میں بی بی اے کر رہا ہے، اور وہ ابھی تک گھر نہیں پہنچا: ’ہم پریشان تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ رشتہ داروں کے یہاں چلا گیا ہے، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ہم ناراض ہوں گے۔‘

لیکن مقبول کہتے ہیں کہ وہ یونیورسٹی کے اس فیصلے پر مطمئن ہیں: ’جس طرح کا وہاں ماحول ہے، ایسے میں بچوں کو واپس روانہ کرنا بہتر تھا، کیونکہ جو کچھ ہم سن رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہاں خون خرابہ بھی ہوسکتا تھا۔ اس لیے ہم یونیورسٹی حکام کے مشکور ہیں۔‘

اکثر طلبہ کا کہنا ہے کہ انھیں پولیس کی تحویل میں نئی دہلی کے ریلوے سٹیشن پہنچایا گیا اور کرایے کے لیے اصرار کے باوجود کوئی پیسہ نہیں دیا گیا۔ دہلی میں مقیم بعض دوستوں کی مدد سے وہ جموں کے لیے ٹرین پکڑ سکے، لیکن وہاں سے انھیں سرینگر پہنچانے کے لیے ایک سیاسی تنظیم کے کارکنوں نے ان کی مدد کی۔

شاہد آفریدی کے بھارت کے خلاف دو چھکوں نے جاوید میانداد کے شارجے کے چھکے کی یاد تازہ کر دی

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشنشاہد آفریدی کے بھارت کے خلاف دو چھکوں نے جاوید میانداد کے شارجے کے چھکے کی یاد تازہ کر دی

علیحدگی پسند رہنماؤں سید علی اور گیلانی اور میرواعظ عمرفاروق نے اس صورتِ حال کو نازی طرز عمل سے تعبیر کیا ہے۔ انھوں نے الگ الگ بیانات میں کہا ہے کہ بھارت کے تعلیمی اداروں میں بھی فرقہ وارانہ سوچ کار فرما ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ان طلبہ میں سے بیشتر کو حکومت ہند کے وزیراعظم سکالرشپ پروگرام کے تحت داخلہ ملا ہے۔ یہ پروگرام 2010 میں یہاں چلنے والی احتجاجی تحریک کے بعد کشمیریوں کا دل جیتنے کی کوششوں کے تحت شروع کیا گیا تھا۔

کشمیری ڈاکٹروں کی انجمن کے سربراہ ڈاکٹر نثارالحسن کہتے ہیں: ’ہزاروں کشمیری بھارت کے تعلیمی اداروں میں زیرِتعلیم ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ سینکڑوں میل دُور ہندوستانی کلچر میں رہتے ہوئے پاکستان نوازی کا دم نہیں بھرسکتے۔ فرقہ وارانہ عناصر انہیں اکساتے ہیں اور پھر انہیں محض مسلمان اور کشمیری ہونے کی پاداش میں سزا دی جاتی ہے۔‘