کیا انڈیا اور چین، سری لنکا کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں؟

انڈیا چین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

    • مصنف, فیصل محمد علی
    • عہدہ, بی بی سی نامہ نگار

بیجنگ میں حالیہ بریفنگ میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے کہا کہ ہم سری لنکا کو موجودہ معاشی بحران کی صورتحال سے نکالنے کے لیے انڈیا کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔

میڈیا سے بات چیت کے دوران ژاؤ لیجیان نے اس معاملے میں انڈیا کے اقدامات کی تعریف کی اور ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ چین نے حال ہی میں سری لنکا کو 7300 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان کے اس بیان سے ایک ہفتہ قبل چین کے سرکاری میڈیا ’گلوبل ٹائمز‘ نے اپنے ایک مضمون میں چین اور انڈیا کے ایک ساتھ مل کر کام کرنے کی بات کی تھی۔

مئی کے اواخر میں شائع ہونے والے اس مضمون میں کہا گیا تھا کہ ’انڈیا، سری لنکا میں چین کے بی آر آئی (بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹوز) منصوبوں کے بارے میں محتاط رہا ہے لیکن ہمیں اب بھی یقین ہے کہ انڈیا اور چین خطے کی اقتصادی ترقی کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں۔‘

کیا انڈیا اور چین مل کر کام کریں گے؟

ماضی قریب میں بار بار اس طرح کے بیانات سامنے آنے کے بعد بین الاقوامی امور کے چند مبصرین کو اس بات پر یقین ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں۔

پروفیسر پشپ ادھیکاری کا خیال ہے کہ تعاون کے معاملے پر اعلیٰ سطح پر رابطے ہو سکتے ہیں لیکن جے این یو کے پروفیسر شری کانت کونڈاپلی اسے ایک نیک نیت خیال سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ایک ساتھ کام کرنے سے ان دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے مواقع پیدا ہوں گے ایسا کچھ نہیں کیونکہ یہ چین کی حکمت عملی کا حصہ ہے اور آخر میں فتح صرف اسی کی ہوتی ہے۔

دونوں ماہرین ایشیائی طاقتوں کے ایک ساتھ مل کر سری لنکا کو اس معاشی بحران سے نکالنے کے حق میں ہیں، ان کا خیال ہے کہ اس سے علاقائی سطح پر ایشیائی خطے کے مسئلے کے حل کے لیے بہتر پیغام جائے گا۔

دوسرا، چین کے لیے فائدہ یہ ہو گا کہ اس کی سرمایہ کاری اور قرض محفوظ ہو جائے گا جبکہ انڈیا، سری لنکا کے مسئلے سے پیدا ہونے والے منفی اثرات سے بچ جائے گا۔

سری لنکا ہنگامے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انڈیا کے لیے زیادہ تشویش

شری کانت کونڈاپلی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امور میں پروفیسر ہیں جبکہ پشپا ادھیکاری نیپال کے شہر کھٹمنڈو میں واقع تریبھون یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔

دونوں کا ماننا ہے کہ سری لنکا کے معاشی بحران اور اس سے پیدا ہونے والے سیاسی مسئلے کو جلد از جلد حل کرنا انڈیا کے مفاد میں ہے اور اس کا اثر انڈیا کے اندرونی معاملات پر بھی پڑ سکتا ہے۔

سال کی پہلی سہ ماہی سے معاشی بحران پر احتجاج کے بعد سری لنکا کے وزیر اعظم کو دارالحکومت کولمبو سے کسی نامعلوم مقام پر فرار ہونا پڑا۔

یاد رہے کہ سنیچر کو مشتعل ہجوم نے سری لنکا کے صدر گوتابایا راجا پاکشے اور نگراں وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے کی رہائشگاہ پر دھاوا بول دیا تھا اور یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک صدر اور وزیر اعظم دونوں باہر آ کر استعفیٰ نہیں دیتے۔

انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اتوار کو ترواننت پورم میں پڑوسی ملک میں اس بحران کے شدید ہونے کے بارے میں کہا کہ اس وقت انڈیا کے لیے پناہ گزینوں کا کوئی بحران نہیں۔

انڈین میڈیا میں شائع خبر کے مطابق سری لنکا میں مارچ میں معاشی بحران شدید ہونا شروع ہو گیا۔ تب سے اب تک تقریباً 90 مہاجرین انڈیا آچکے ہیں۔

گوتابایا راجاپکشے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسری لنکا میں معاشی بحران پر شدید مظاہروں کے سلسلے کے بعد بدھ کو صدر گوتابایا راجاپکشے ملک سے فرار ہو گئے ہیں

’سری لنکا میں استحکام انڈیا کے لیے اہم‘

دلی میں سری لنکا کے سابق سفیر آسٹن فرنینڈو نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ سری لنکا کا سیاسی استحکام انڈیا کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ انڈیا شمال، شمال مشرق اور مغرب میں جاری کشیدہ صورتحال کے درمیان جنوب میں دوسرا محاذ نہیں کھولنا چاہے گا۔ سری لنکا کو خدشہ ہے کہ تامل ٹائیگرز جیسے گروہ دوبارہ متحد نہ ہو جائیں۔

یاد رہے کہ انڈیا کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کو سری لنکا کی انتہا پسند تنظیم ایل ٹی ٹی ای کے خودکش حملہ آوروں نے قتل کیا تھا۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق سری لنکا میں انڈیا کے سفیر گوپال باگلے نے اتوار کو کولمبو میں سری لنکا کے وزیر زراعت مہندا امراویرا سے ملاقات کی اور انھیں انڈیا سے بھیجے جانے والے 44 ہزار ٹن یوریا کے بارے میں بتایا۔

وزارت خارجہ کے مطابق، سال کے آغاز سے، انڈیا سری لنکا کو دیگر طریقوں سے مدد فراہم کر رہا ہے، جو جنوبی ریاست تامل ناڈو سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

اب تک، انڈیا نے سری لنکا کو 3.8 بلین ڈالر کی امداد دی ہے، جس میں کرنسی کی تبدیلی اور کریڈٹ کی سہولیات شامل ہیں۔

چین اور سری لنکا کے تعلقات کی حقیقت

ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا سری لنکا تعلقات صرف اقتصادی بنیادوں تک محدود نہیں بلکہ وہ جغرافیائی طور پر ایک دوسرے کے قریب ہیں اور دونوں ممالک برطانوی سلطنت کا حصہ رہے ہیں۔

اس کے علاوہ سری لنکا میں انڈیا کی سیاسی مداخلت بھی رہی ہے جیسا کہ تامل کا مسئلہ اور اس سلسلے میں انڈیا کی جانب سے اٹھائے گئے بہت سے اقدامات۔

جبکہ چین اور سری لنکا کے تعلقات اقتصادی اور مالیاتی بنیادوں پر استوار ہیں تاہم حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان عسکری اور سیاسی میدان میں بھی قربتیں بڑھی ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ سال 2009 میں سری لنکا کی انتہا پسند تنظیم ایل ٹی ٹی ای کو شکست دینے میں چین نے سری لنکا کی بہت مدد کی تھی۔

پروفیسر پشپا ادھیکاری کا خیال ہے کہ انتہا پسند تنظیموں اور کچھ دیگر معاملات پر انڈیا کی انتہائی غیر عملی پالیسیوں نے بھی سری لنکا کو چین کی طرف دھکیل دیا، حالانکہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں سری لنکا میں جو کچھ ہوا اس میں بدعنوانی نے بڑا کردار ادا کیا۔

چینی ورکر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سری لنکا پر کس کا قرض ہے؟

چین اور سری لنکا کے درمیان مضبوط اقتصادی اور مالیاتی تعلقات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی بار سری لنکا کے چین کے قرضوں میں پھنسنے کی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔

چین کے سرکاری میڈیا ’گلوبل ٹائمز‘ کے ایک مضمون میں چین نے اپنا مؤقف دیتے ہوئے مغربی میڈیا پر ایسی خبریں گھڑنے کا الزام لگایا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ سری لنکا کے کل قرضوں میں چین کا حصہ صرف دس فیصد ہے۔

اس مضمون میں سری لنکا کے فارن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ سری لنکا کے کل قرضوں کا 47 فیصد بین الاقوامی منڈی، 13 فیصد ایشیائی ترقیاتی بینک اور 10 فیصد بالترتیب چین اور جاپان کا ہے۔

ورلڈ بینک کا حصہ نو فیصد، انڈیا کا دو اور دیگر ایجنسیوں کا نو فیصد ہے۔

لیکن پروفیسر سری کانت کونڈاپلی کا سوال یہ ہے کہ سری لنکا کے قرض میں چین کا حصہ کم ہونے کے باوجود چین جو خود کو سری لنکا کا دوست کہتا ہے، نے اس سنگین صورتحال میں اس کی مدد کیوں نہیں کی اور جس کریڈٹ لائن کی بات کی گئی تھی وہ بھی فراہم نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیے

چین سری لنکا

،تصویر کا ذریعہReuters

کیا یہ چین کا ’مکروہ‘ منصوبہ ہے؟

اس وقت انڈیا اور سری لنکا کے تعلقات بہت مضبوط بنیادوں پر ہیں۔ پروفیسر کونڈاپلی کا اصرار ہے کہ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انڈیا اور سری لنکا کے تعلقات میں جغرافیہ بہت اہم کردار ادا کرے گا۔ چین سری لنکا سے چھ ہزار کلومیٹر دور ہے جبکہ انڈیا صرف چند کلومیٹر دور ہے۔

وہ سری لنکا کے بحران کے مشترکہ خاتمے کی چین کی بات کو ایک ’مکروہ منصوبہ‘ قرار دیتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے انڈیا کے نیپال میں زلزلے کے بعد مل کر کام کرنے کی بات کے بعد کھٹمنڈو میں چینی سفارت خانے نے نیپالی حکومت کے اندرونی معاملات تک دخل اندازی کی تھی۔

دریں اثنا، سری لنکا کے اندر سے ایک گروپ بین الاقوامی قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کی آخری تاریخ کو تبدیل کرنے میں انڈیا کی مدد کے لیے زور دے رہا ہے۔

اس کا فائدہ انڈیا کو مل سکتا ہے لیکن ساتھ ہی ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو کہہ رہا ہے کہ انڈیا جو کچھ کر رہا ہے وہ اس کے سیاسی مفاد میں ہے اور اس سے ملک کی خودمختاری کو نقصان پہنچے گا۔

اس تناظر میں وہ سنہ 2009 سے پہلے کے تامل معاملات سے متعلق واقعات اور انڈیا کے کردار کو نہیں بھولتے ہیں۔