انڈیا کی ریاست آسام جہاں ہر سال سیلاب سے 200 کروڑ روپے کا نقصان ہوتا ہے

    • مصنف, نیاز فاروقی
    • عہدہ, بی بی سی، نئی دہلی

گوتم چکرورتی اپنے گھر کی پہلی منزل پر سیلاب سے بچنے کے لیے محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام کے سلچر شہر کے رہنے والے ہیں جو کہ رواں سال ریاست میں سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں شامل ہے۔

ریاست کے 28 ضلعوں میں سے 25 سیلاب سے متاثر ہیں۔

گذشتہ ہفتے دریائے بارک کا سیلابی پانی اچانک گوتم کے شہر میں داخل ہوگیا اور چند ہی گھنٹوں میں گراؤنڈ فلور میں پانی بھر گیا۔

ان کے پڑوس میں 33 افراد، جن میں دو حاملہ خواتین بھی تھیں، نے ان کے فرسٹ فلور پر پناہ لی۔

گوتم بتاتے ہیں کہ پانی کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ 'میں نے ان سے کہا کہ اپنے کاغذات کے علاوہ سب کچھ چھوڑ کر آپ لوگ جلدی سے میرے گھر جائیں۔'

شہر میں ہر جگہ پانی تھا اور گوتم کے گھر میں اب اضافی لوگ تھے۔ انھیں احساس ہوا کہ ان کے پاس سب کے لیے کافی کھانا اور پانی دستیاب نہیں ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ 'میں نے بدھ کو کھانا کھایا تھا لیکن سنیچر کی دوپہر تک کھانے کے لیے کچھ نہیں ملا۔ میرے گھر پناہ لینے والے تمام مردوں نے اس دوران کچھ نہیں کھایا۔'

آخر کار گوتم نے اور ان کے گھر پر پناہ لینے والے دوسرے آدمیوں نے ٹائر اور تھرموکول سے ایک عارضی کشتی بنائی تاکہ آس پاس کے لوگوں کی مدد کرنے والی این جی اوز سے کھانا لا سکے۔

گوتم کا کہنا ہے کہ ان کے شہر میں 'سیلاب تو ہر سال آتا تھا لیکن حالات اتنے برے کبھی نہیں ہوتے تھے۔'

سنٹرل واٹر کمیشن کے 1953 سے 2016 کے اعداد و شمار کے مطابق آسام میں سیلاب سے ہر سال اوسطاً 26 لاکھ لوگ متاثر ہوتے ہیں۔

اور اس کی ایک وجہ ہے اضافی بارش۔

محکمہ موسمیات کے مطابق ریاست میں رواں سال ابھی تک 528.5 ملی میٹر بارش ہوئی ہے حالانکہ عام طور پر 252.8 ملی میٹر ہوتی تھی۔

آسام میں مقیم سیلاب اور ماحولیات کے ماہر اروپ جیوتی سائکیہ نے کہا کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ اس نوعیت کے سیلاب کی اصل وجہ کیا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ اس سال بے موسمی بارش بہت زیادہ ہوئی ہے۔

یہ علاقہ دنیا کے سب سے زیادہ بارش والے حصوں میں سے ایک ہے۔

مزید پڑھیے

وہ کہتے ہیں 'ہم اکثر اس نوعیت کے سیلاب دیکھتے ہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس بار میگھالیہ میں بہت تیز بارش ہوئی ہے جس کا اثر آسام پر پڑا ہے۔'

میگھالیہ، جہاں رواں سال تاریخی سطح کی بارش ہوئی ہے، آسام کی پڑوسی ریاست ہے۔ ماوسنرام بھی اسی ریاست کا حصہ ہے جہاں انڈیا میں سب سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔ 16 جون کو محض 24 گھنٹوں کے اندر یہاں 1003.6 ملی میٹر بارش ہوئی تھی۔ واضح کر دیں کہ دہلی میں پورے مون سون سیزن میں اوسطاً 650 ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔

لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک واحد وجہ نہیں ہو سکتی۔

بارش کے علاوہ ریاست میں دریائیوں کا نیٹ ورک حالات کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ ریاست میں 20 دریاؤں کی 50 معاون ندیوں کا جال ہے اور ان میں سب سے اہم براک اور برہم پتر دریا ہیں۔

محظ اس سال کے سیلاب میں ریاست میں 120 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

آسام سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی 26 جون کی رپورٹ کے مطابق 35 میں سے ریاست کے 28 اضلاع میں 22,21,577 افراد اور 74,706 ہیکٹر کا رقبہ متاثر ہوا ہے۔

تقریباً دو لاکھ 70 ہزار لوگوں کو سیلاب سے متاثر علاقوں سے نکال کر 564 ریلیف کیمپوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سیلاب کی موجودہ لہر میں تقریباً 60,000 جانور بہہ گئے ہیں اور تقریباً 36 لاکھ متاثر ہوئے ہیں۔

جب گوتم کو صبح چار بجے احساس ہوا کہ سیلاب کا پانی ان کے شہر میں تیزی سے داخل ہو رہا ہے تو ان کے ذہن میں سب سے بڑی پریشانی ان کی دو ماہ کی بیٹی کی حفاظت تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ 'میں فوری طور پر قریبی دکان پر گیا اور دکاندار سے لیکٹوجن (چھوٹے بچوں کے لیے خشک دودھ کا پاؤڈر) طلب کیا۔‘

وہ کہتے ہیں: 'اس کے پاس صرف پانچ پیکٹ ہی بچے تھے اور میں نے سب کو پیک کرنے کو کہا۔ لیکن میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ چونکہ میں اس دن اس کا پہلا گاہک تھا وہ چاہتا تھا کہ میں ادھار کی بجائے نقد رقم ادا کروں۔'

وہ کہتے ہیں 'میں عجلت میں پیسے لے کر نہیں گیا تھا۔ اور پانی اتنی تیزی سے اوپر بڑھ رہا تھا کہ میں نے اسے اپنی شادی کی انگوٹھی دے دی۔'

حلانکہ سیلاب اس ریاست میں عام ہے لیکن یہ ہمیشہ اتنا تباہ کن نہیں ہوتا تھا۔ یہاں لوگ اکثر زراعت پر انحصار کرتے ہیں اور صدیوں سے جنوب مغربی علاقے میں مون سون کے بعد ریاست کے نشیبی علاقوں میں سیلاب آتا رہا ہے جو کہ زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتا ہے۔

تاہم حالیہ برسوں میں سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی کی حد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

مختلف ریسرچ کے مطابق ریاست کا تقریباً 40 فیصد علاقہ سیلاب کا شکار ہوتا ہے۔ اور دی ہندو اخبار کے مطابق سیلاب کی وجہ سے ریاست کو اوسطاً 200 کروڑ روپے کا سالانہ نقصان ہوتا ہے۔

متاثرہ افراد میں سومناتھ چکرورتی بھی شامل ہیں۔ ان کے مکان کا گراؤنڈ فلور سیلاب کے پانی میں ڈوب گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'پورے ہفتے سے بارش ہورہی تھی اور میں نے سوشل میڈیا پر لوگوں کی پوسٹس دیکھیں کہ دریا میں پانی کی سطح بلند ہورہی ہے۔'

لیکن اس سے پہلے کہ وہ محفوظ مقام پر منتقل ہوتے، صبح تک پشتہ ٹوٹ چکا تھا۔

'یہ تین جگہوں پر ٹوٹ گیا اور تین اطراف سے پانی بہت تیزی سے ایک ساتھ ہمارے علاقے میں داخل ہو گیا۔'

ان کا کہنا ہے کہ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ دریا کی گہرائی کم ہو رہی ہے۔

ریاست میں سب سے زیادہ تباہی پیدا کرنے والے دریاؤں میں سے برہم پتر سب سے اہم ہے جو کہ ہمالیہ سے نکلتا ہے اور خلیج بنگال میں گرنے سے پہلے اروناچل پردیش کے راستے انڈیا میں داخل ہوتا ہے۔ یہ آسام میں تقریباً 650 کلومیٹر تک بہتا ہے اور اس کی اوسط چوڑائی 5.46 کلومیٹر ہے۔

یہ ہمالیہ کے کیلاش رینج سے نلکتا ہے، جس کی بلندی بہت زیادہ ہے۔ لیکن نیچے پہنچنے پر کم ڈھلان ہونے کی وجہ سے دریا کی رفتار کم ہو جاتی ہے اور دریا کی ذریعے لائی جانے والی تلچھٹ (سیڈیمینٹ) نیچے کے علاقے میں جمع ہوتی ہے۔

یہ تلچھٹ وقت کے ساتھ بڑھتی ہے اور دریا کے سطح کو اونچا کرتی ہے جو کہ دریا کا پانی لے جانے کی صلاحیت کو کم کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں دریا کا پانی وسیع علاقے میں پھیل جاتا ہے اور اکثر سیلاب کا سبب بنتا ہے۔

مقامی لوگ اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ اس بار پانی کی رفتار غیر معمولی تھی۔ اس کی وجہ سے متاثرہ لوگوں کو محفوظ علاقے میں جانے کا بھی وقت نہیں ملا۔

سومناتھ کہتے ہیں، 'بجلی غائب ہو گئی، ٹیلی کام نیٹ ورک چلا گیا۔ گراؤنڈ فلور پر میری پانی کی ٹنکی سیلابی پانی سے آلودہ ہو گئی۔ جلد ہی ہمارے پاس پینے کے لیے پانی بھی نہیں بچا تھا۔'

گوتم بھی کہتے ہیں کہ انہیں پینے کے لیے بارش کے پانی پر انحصار کرنا پڑا۔ لیکن مقامی لوگ بے بس تھے کیوں کہ شہر میں 15 فیٹ تک پانی تھا۔ یہاں تک کہ جہاں پانی کم تھا، وہاں بھی کم از کم پانچ فٹ پانی تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اب پانی کی سطح کم ہو رہی ہے لیکن ابھی بھی حالات معمول سے دور ہیں۔‘

ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں یہ دوسرا موقع ہے جب آسام میں سیلاب نے تباہی مچائی ہے۔ مئی میں سیلاب کی وجہ سے ریاست میں کم از کم 30 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی شاہراہوں نے بھی مسائل پیدا کیے ہیں جو کہ نئے علاقوں میں پانی کے بہاؤ کے لئے رکاوٹیں پیدا کر رہی ہیں اور جگہ جگہ اس طرح کی نئی تعمیرات کی وجہ سے پہاڑ کو لینڈ سلائیڈنگ کے لئے کمزور کر رہی ہیں۔

پروفیسر سائکیہ خبردار کرتے ہیں کہ حالات اس سے بدتر ہونے کے امکان ہیں۔ وہ کہتے ہیں 'ابھی تو مون سون کی شروعات ہوئی ہے۔ جولائی اگست تو ابھی آنا باقی ہے جن مہینوں بہت زیادہ بارش ہوتی ہے۔ حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں'۔