انڈیا کے چلڈرن ہوم سے بچھڑ کر امریکہ اور ڈنمارک پہنچنے والے بہن بھائی کا 42 سال بعد ملاپ

کیسپر اینڈرسن اور ان کی بہن ڈاین وجیا کال

،تصویر کا ذریعہCASPER ANDERSON

،تصویر کا کیپشنکیسپر اینڈرسن اور ان کی بہن ڈاین وجیا کال
    • مصنف, موہن
    • عہدہ, بی بی سی تمل سروس کے لیے

سنہ 1970 کی دہائی میں انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کے معروف شہر کوئمبٹور میں میری کیتھرین نامی خاتون ’بلیو ماؤنٹین‘ نامی چلڈرن ہوم چلاتی تھیں۔

اسی زمانے میں ایاوو اور سرسوتی نامی جوڑے نے اپنے دو بچوں وجیا اور راج کمار کو اس چلڈرن ہوم میں چھوڑ دیا۔

سنہ 1979 میں راج کمار کو ڈنمارک کے ایک جوڑے نے گود لیا اور ان کا نام کیسپر اینڈرسن رکھا۔ اسی وقت راج کمار کی بہن وجیا کو امریکہ کے ایک جوڑے نے گود لیا اور ایک نیا نام ڈاین وجیا دیا گیا۔

اب 42 سال بعد یہ دونوں بھائی بہن ملے ہیں اور یہ ڈی این اے ٹیسٹنگ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ممکن ہوا۔

ڈاین کو یکم فروری سنہ 1979 کو گود لیا گیا تھا۔ ان کے نئے والدین انھیں امریکہ لے گئے جبکہ راج کمار کو اسی سال نو فروری کو گود لیا گیا اور ڈنمارک لے جایا گیا۔

ڈاین کو یاد ہے کہ ان کا ایک چھوٹا بھائی تھا لیکن جب کیسپر کو گود لیا جا رہا تھا وہ اس وقت بہت چھوٹے تھے۔ انھیں یاد نہیں تھا کہ ان کی کوئی بہن ہے۔

ان دونوں بہن بھائیوں پر ایک دستاویزی فلم بھی بنائی گئی ہے۔ ڈاین کا کہنا ہے کہ جب وہ تین سال کی تھیں تو ان کی ماں نے انھیں یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ وہ کھانا لینے باہر جا رہی ہیں۔

دستاویزی فلم میں وہ کہتی ہیں کہ ’میں رو رہی تھی اور اپنی والدہ سے کہہ رہی تھی کہ وہ مجھے چھوڑ کر نہ جائیں۔ وہ آخری بار تھا جب میں نے انھیں دیکھا تھا۔‘

ان دونوں کی ملاقات پر ایک دستاویزی فلم بھی بنی ہے

،تصویر کا ذریعہCASPER ANDERSON

،تصویر کا کیپشنان دونوں کی ملاقات پر ایک دستاویزی فلم بھی بنی ہے

اپنی جڑوں کی تلاش

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاین نے کہا کہ جب وہ بیرون ملک ایک سفید فام گھرانے میں پلی بڑھیں تو وہ بہت الگ تھلگ محسوس کرتی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنی ماں کو نہیں بھول سکی۔ میری انڈیا سے جڑی یادیں تھیں تاہم جس خاندان نے مجھے گود لیا، اس نے میرا بہت خیال رکھا اور میری اچھی دیکھ بھال کی۔‘

کیسپر کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ یورپ میں تھے لیکن ان کی جلد کے رنگ نے انھیں بتایا کہ ان کی جڑیں انڈیا میں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے کبھی اپنی جڑوں کا پتا لگانے کا موقع نہیں ملا۔ میں دو بار کوئمبٹور آیا۔ ایک بار سنہ 2015 میں اور ایک بار پھر 2019 میں۔ میں نے دیکھا کہ میں جس چلڈرن ہوم میں رہا تھا وہ کافی عرصہ پہلے بند ہو چکا تھا۔‘

’جو لوگ اسے چلاتے تھے وہ مجھے اس سے متعلق تصاویر دینے کے علاوہ کوئی اور معلومات نہیں دے سکتے تھے۔ میں مایوس ہو کر واپس ڈنمارک چلا گیا۔‘

تمل ناڈو کے شہر کوئمبٹور میں میری کیتھرین نامی خاتون ’بلیو ماؤنٹین‘ نامی چلڈرن ہوم چلاتی تھیں

،تصویر کا ذریعہCASPER ANDERSON

،تصویر کا کیپشن1970 کی دہائی میں انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کے شہر کوئمبٹور میں میری کیتھرین نامی خاتون ’بلیو ماؤنٹین‘ نامی چلڈرن ہوم چلاتی تھیں

ڈی این اے ٹیسٹ

اسی دوران کیسپر کے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ انھیں ڈی این اے ٹیسٹ کرانا چاہیے۔ انھوں نے بتایا کہ بہت سی کمپنیاں ایسی ہیں جو ڈی این اے کے نمونوں کی جانچ کر کے اپنے سٹورز میں رکھے ہوئے نمونوں سے میچ کرتی ہیں۔

اپنے خاندان کے بارے میں مزید جاننے کی امید میں، کیسپر نے اپنے ڈی این اے کے نمونے ایک فرم کو دیے۔

ابتدا میں کیسپر کو حوصلہ افزا نتیجے نہیں ملے لیکن چند ماہ بعد امریکہ سے مائیکل نامی شخص نے انھیں فون کیا اور کہا کہ ان کے ڈی این اے کا نمونہ کسی حد تک کیسپر کے نمونے سے ملتا جلتا ہے۔

دوسری جانب ڈاین نے اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا بیٹا مائیکل کسی کام کے سلسلے میں تھوڑے وقت کے لیے بنگلور گیا تھا۔ وہاں سے اس نے مجھے فون پر بتایا کہ ماں، مجھے آپ کے کچھ رشتہ دار مل گئے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

ڈاین کو یاد آیا کہ ان کا ایک بھائی بھی ہے لیکن شروع میں انھوں نے سوچا کہ ان کے بیٹے کو کوئی دور کا رشتہ دار ملا ہو گا۔ بعد میں انھیں معلوم ہوا کہ جس شخص کو ان کے بیٹے نے ڈھونڈ نکالا ہے، وہ ان کا حقیقی بھائی ہے۔

اپنے خاندان کی تلاش میں ڈاین نے اپنا ڈی این نمونہ بھی ایک دوسری کمپنی کو دیا۔ ڈاین کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ جب میں چلڈرن ہوم میں تھی تو میرے ساتھ ایک چھوٹا بچہ تھا۔ میں جب اس سے ملتی تھی تو اسے کھانا اور ناشتہ دیا کرتی تھی۔‘

کیسپر کا کہنا ہے کہ مائیکل نے انھیں بتایا کہ ان کی ماں کو اسی چلڈرن ہوم سے گود لیا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والدین کی تلاش میں انڈیا آیا تھا لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری ایک بہن بھی ہے۔ میں نے سنہ 2019 میں پہلی بار فون پر اپنی بہن سے بات کی۔‘

بچپن کی تصویر

،تصویر کا ذریعہCASPER ANDERSON

،تصویر کا کیپشنکیسپر اینڈرسن اور ان کی بہن ڈاین وجیا کال کے بچپن کی ایک تصویر

دوبارہ ملن

چونکہ اس دوران دنیا بھر میں لاک ڈاؤن جاری تھا، اس لیے بہن بھائیوں کو ملنے کے لیے رواں سال فروری تک انتظار کرنا پڑا۔

کیسپر نے ایک بار پھر اپنا ڈی این اے ایک کمپنی کو دیا، ڈاین نے بھی اسی کمپنی کو پہلے اپنا ڈی این اے سیمپل دیا تھا۔ کیسپر کا کہنا ہے کہ ’دونوں کا ڈی این اے 100 فیصد ملتا ہوا پایا گیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اپنی بہن کو ڈھونڈنے سے قبل ہی مجھے چلڈرن ہوم سے ایک تصویر ملی گئی تھی جس میں میری بہن میرے ساتھ مجھ سے آگے کھڑی دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے اس وقت تک اسے صرف تصویر میں دیکھا تھا۔ اس وقت سے اس سے ملنے کی خواہش شدت اختیار کر گئی تھی۔‘

کیسپر نے کہا کہ جب میں اپنے والدین کی تلاش میں انڈیا آیا تھا تو میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے میری بہن مل جائے گی۔

’میں نے صرف ناولوں اور کہانیوں میں ایسا ہوتا ہوا پڑھا ہے۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ میری ایک بہن ہے تو میرے اندر جو احساسات ابھر رہے تھے میں اسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔‘

ڈاین کا کہنا ہے کہ پہلی بار کیسپر سے بات کرتے ہوئے انھیں احساس ہو گیا تھا کہ وہ ان کا حقیقی بھائی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ڈی این اے ٹیسٹ محض ایک رسمی کارروائی تھی۔‘

ڈاین اور کیسپر اب ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔ دونوں جلد ہی ساتھ مل کر انڈیا میں اپنے خاندان کے مزید افراد کو تلاش کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔