جہانگیر پوری فسادات: دلی حکومت کی خاموشی پر سوال، ’کیا کیجریوال صرف ہندوؤں کے وزیر اعلیٰ ہیں؟‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, گیتا پانڈے
- عہدہ, بی بی سی نیوز
بدعنوانی کے خلاف تحریک سے سرخیوں میں آنے والے اروند کیجریوال نے تقریباً 10 سال قبل سیاسی نظام کو صاف کرنے اور ترقی کا وعدہ کرتے ہوئے سیاست میں قدم رکھا تھا۔
اپنی تحریک شروع کرنے کے صرف دو سال میں ہی وہ دہلی کی وزارت اعلیٰ کی کرسی تک پہنچ گئے۔ کیجریوال درمیان کے کچھ وقفے کے علاوہ 2013 سے دہلی میں برسراقتدار ہیں۔
کیجریوال اور ان کی عام آدمی پارٹی سرکاری سکولوں کی حالت کو بہتر بنانے، سستے کلینک، بجلی اور پانی فراہم کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔
ان کی عام آدمی پارٹی نے حال ہی میں پنجاب اسمبلی انتخابات میں تاریخی فتح حاصل کر کے اپنا اثر و رسوخ مزید بڑھایا ہے۔
اروند کیجریوال نے اکثر کہا ہے کہ ان کی پارٹی تمام مذاہب کو یکساں سمجھتی ہے اور سب کو انصاف کے مواقع فراہم کرنے میں یقین رکھتی ہے۔ مذہب کے نام پر منقسم سیاست کے تجربے سے دوچار لوگوں نے ان کے اس وعدے کو سراہا تھا۔
لیکن گذشتہ ہفتے دلی کے جہانگیر پوری علاقے میں فسادات کے بعد لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اروند کیجریوال دہلی کے متاثرہ مسلمانوں کے لیے کچھ کیوں نہیں بولتے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
جہانگیرپوری واقعے کے لیے ہندو اور مسلم دونوں مذاہب کے لوگوں نے ایک دوسرے پر فسادات شروع کرنے کا الزام لگایا ہے۔ یہ فسادات اس وقت ہوئے جب دلی کے جہانگیر پوری علاقے میں ہندوؤں کا ایک جلوس مسجد کے سامنے سے گزر رہا تھا۔
اس واقعے کے بعد مرکز میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے تحت کام کرنے والی دہلی پولیس نے اس معاملے میں زیادہ تر مسلمانوں کو گرفتار کیا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اس کے علاوہ بی جے پی کے زیرقیادت میونسپل کارپوریشن نے علاقے میں غیر قانونی تجاوزات کو مسمار کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کیا۔ تاہم سپریم کورٹ کی مداخلت سے تجاوزات ہٹانے کی یہ مہم روک دی گئی۔ لیکن حکومت کے اس اقدام کو لوگوں نے 'مسلم فسادیوں کو سبق سکھانے' کے طور پر دیکھا۔
تاہم حکومت کے ان اقدامات سے زیادہ تر لوگوں کو حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ گذشتہ چند برسوں کے دوران انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں بی جے پی کی حکومت والی کئی ریاستوں میں انتظامیہ کی ایسی کارروائیاں دیکھی گئی ہیں۔
ناقدین کا خیال ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود اروند کیجریوال کا ردعمل کچھ خاص نہیں تھا۔ اس واقعے کو ایک ہفتے سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اب تک وہ اس علاقے کے دورے پر نہیں گئے۔
اتنا ہی نہیں بلکہ انھوں نے اس معاملے کی مذمت بھی بہت دبی زبان میں کی۔
انھوں نے ہندوؤں کے جلوس پر پتھراؤ کرنے والوں پر تنقید تو کی لیکن ہتھیار لے کر جلوس میں شرکت کرنے والوں پر تنقید نہیں کی جنھوں نے مبینہ طور پر اشتعال انگیز نعرے لگائے تھے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام
کئی لوگوں نے کیجریوال کے اس مؤقف پر تنقید کی ہے
سینیئر صحافی اور عام آدمی پارٹی کے سابق رہنما آشوتوش نے کہا کہ ’تمام شہریوں کے حق کے لیے کھڑا ہونا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن کیجریوال ایسا برتاؤ کر رہے ہیں جیسے وہ صرف ہندوؤں کے وزیر اعلیٰ ہیں۔‘
انھوں نے کہا ’وزیراعلیٰ کے ٹویٹ میں پتھراؤ کرنے والوں پر تنقید قابل اعتراض ہے کیونکہ انھوں نے ان وجوہات پر تنقید نہیں کی جن کی وجہ سے وہ پتھراؤ کرنے پر مجبور ہوئے۔ جلوس میں شامل لوگ ہتھیاروں سے لیس تھے اور انھوں نے مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہوئے ان کے خلاف قابل اعتراض اور اشتعال انگیز نعرے لگائے تھے۔‘
آشوتوش نے کہا کہ کیجریوال سمجھتے ہیں کہ اگر وہ بلڈوزر کی کارروائی کی مخالفت کریں گے تو لوگ سمجھیں گے کہ وہ مسلمانوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ ’انڈیا میں جہاں 80 فیصد لوگ ہندو ہیں، وہاں کیجریوال اکثریت کی سیاست کر رہے ہیں۔'
ان کا کہنا ہے کہ ’بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ کیجریوال کے پاس اتنی اخلاقی جرت نہیں ہے کہ وہ ان اقدار کے حق میں کھڑے ہوں جن پر دنیا یقین رکھتی ہے۔‘
جہانگیر پوری معاملے میں لوگوں نے کیجریوال کے موقف اور اپوزیشن پارٹیوں پر تنقید کرنے والے بیانات کے خلاف ان کے ردعمل کا موازنہ کرنا شروع کر دیا ہے۔
اس معاملے میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا۔مارکسسٹ کی رہنما برندا کرات کے مؤقف کی بہت تعریف کی گئی ہے، کیونکہ سپریم کورٹ کے بلڈوزر پر روک لگانے کے بعد وہ فوراً موقع پر پہنچ گئیں۔
سوشل میڈیا پر اس معاملے میں کیجریوال اور ان کی حکومت پر کافی تنقید کے بعد آخر کار عام آدمی پارٹی نے اپنے دو ایم ایل ایز پون شرما اور عبدالرحمان کو ایک دن بعد جہانگیرپوری بھیج دیا تھا۔
بی بی سی نے کیجریوال کے موقف پر ایم ایل اے پون شرما سے بات کی۔ لیکن انھوں نے اپنی پارٹی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ’پارٹی اس معاملے میں خاموش نہیں ہے، لیکن پارٹی نے ہندو۔مسلم یا مندر۔مسجد کے معاملے میں نہ آنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے

،تصویر کا ذریعہNUPHOTO
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم تمام مذاہب کی برابری پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم ترقی کی سیاست کرتے ہیں، ہم تعلیم اور صحت پر توجہ دیتے ہیں۔ ہم لوگوں کو سستی بجلی اور پانی فراہم کرتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ان کی پارٹی نے گھروں اور دکانوں کو مسمار کرنے کی کارروائی کی مذمت کی ہے۔ ان کے مطابق جس طرح سے یہ مہم چلائی گئی وہ غلط ہے اور یہ سب بی جے پی نے کیا ہے۔
’گذشتہ 15 سال سے میونسپل کارپوریشن پر بی جے پی کی حکومت ہے اس لیے اسے بتانا پڑے گا کہ اس عرصے میں تجاوزات کیسے ہوئیں۔‘
لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟
مبینہ تجاوزات ہٹانے کی وجہ سے جہانگیرپوری میں جن لوگوں نے اپنی ملازمتیں کھو دی ہیں انھوں نے کیجریوال اور ان کی پارٹی پر الزام لگایا ہے کہ انھوں نے انھیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ ایسے بے سہارا لوگوں میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے، کوڑا چننے والے، کباڑی اور دکاندار شامل ہیں۔
انوری بی بی کا کہنا تھا کہ 'ہمارے پاس کسی پارٹی کے لوگ نہیں آئے۔ حکومت سب کے لیے کام کرتی ہے، لیکن لگتا ہے کہ ہمارا کوئی نہیں ہے۔‘
سریجا کا کہنا ہے کہ ’کیجریوال نے تمام ذمہ داریوں سے ہاتھ دھو لیا ہے۔ ہر چیز کے لیے وہ مرکزی حکومت کو جوابدہ یا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔‘
ساتھ ہی ان کے پڑوسی شیخ محفوظ الدین کہتے ہیں کہ ’کیجریوال کو ہماری بالکل بھی پرواہ نہیں ہے، وہ صرف ہم سے ووٹ چاہتے ہیں۔‘
سینیئر صحافی راکیش دیکشٹ نے الزام لگایا کہ دہلی حکومت فسادات اور دکانوں کی توڑ پھوڑ کے دوران صرف ’خاموش تماشائی‘ بنی رہی کیونکہ اس سے اس کا مقصد پورا ہو رہا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ 'کیجریوال نے مسلمانوں کو ناراض کیے بغیر قدامت پسندانہ پالیسی اپنائی ہے۔ وہ 2020 میں الیکشن جیتنے کے بعد اپنے مذہب اور عقیدے کا عوامی مظاہرہ کرنے سے نہیں ہچکچاتے ہیں۔‘
راکیش دیکشٹ نے الزام لگایا کہ اب ’آپ‘ باقی پارٹیوں سے مختلف نہیں۔ ’وہ بھی دوسری جماعتوں کی طرح سیاسی مجبوریوں سے متاثر ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں ہندو قوم پرستی کا غلبہ برقرار رہے گا اس لیے مسلمانوں کی زیادہ اہمیت نہیں ہے۔‘
دیکشت کا کہنا ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ جب مسلمانوں پر حملہ ہوا تو کیجریوال خاموش رہے۔ ان کے مطابق اس سے پہلے وہ شہریت ترمیمی قانون اور 2020 کے دہلی فسادات کے دوران بھی نہیں بولے تھے۔
ان کے مطابق جب 2019 میں جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹایا گیا تو اس کی حمایت کرنے والے پہلے لوگوں میں اروند کیجریوال بھی شامل تھے۔
راکیش دیکشت کہتے ہیں ’وہ اپنے نظریے کا فیصلہ اس بات سے کرتے ہیں کہ ایک خاص وقت اور مقام پر انھیں کس چیز سے کیا فائدہ پہنچے گا۔ فی الحال ان کی نظریں گجرات اور ہماچل پردیش کے آنے والے انتخابات پر ہیں۔ اور ان ریاستوں میں مسلمان کم ہیں اور وہاں کا معاشرہ پہلے ہی منقسم ہے۔‘
ان کے مطابق 'آپ کی کوشش ہے کہ وہ مسلمانوں کے مسائل سے خود کو دور رکھے تاکہ وہ ہندوؤں کے ووٹوں سے محروم نہ ہوں۔‘











