انڈیا میں ریاستی انتخاب: 'میں غریب کے گھر تک اس کا حق پہنچائے بغیر چین سے بیٹھنے والا انسان نہیں ہوں'

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے انتخابات میں بی جے پی کی جیت کے بعد دلی میں خطاب کرتے ہوئے عوام اور کارکنوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔

نریندر مودی نے اپنے خطاب کا آغاز 'بھارت ماتا کی جے' کے نعرے سے کیا۔

انڈیا میں فروری اور مارچ 2022 کے دوران پانچ ریاستوں میں ہونے والے ریاستی انتخابات کے بعد سامنے آنے والے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ چار ریاستوں، اُتر پردیش، گوا، منی پور اور اتراکھنڈ، میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جبکہ پنجاب میں عام آدمی پارٹی آگے ہے۔

نتائج کے رجحانات یہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ ان سبھی ریاستوں میں انڈیا کی بڑی اپوزیشن پارٹی یعنی کانگریس بہتر کارکردگی کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔ کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے ایک بیان میں عوام کا فیصلہ تسلیم کیا ہے۔

نریندر مودی کی تقریر

وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ یوپی نے ملک کو کئی وزرائے اعظم دیے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ جب کسی وزیر اعلیٰ کو پانچ سال کی مدت کے بعد دوبارہ منتخب کیا گیا ہے۔ یوپی میں 37 سال کے بعد کوئی حکومت مسلسل دوسری بار آئی ہے۔

وزیر اعظم مودی نے کہا کہ اس ریاست کو ہر سمت سے 'آشیرواد' ملا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کا بی جے پی پر بھروسہ ہے اور لوگ پارٹی کی پالیسی اور نیت پر بھروسہ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا یہ انڈیا کے لیے خوشی کا موقع ہے۔

نریندر مودی نے کہا کہ 2019 میں جب بی جے پی نے عام انتخابات جیت کر مرکز میں حکومت بنائی تھی تو کچھ سیاسی ماہرین نے کہا تھا کہ یہ جیت تو یو پی کے الیکشن کے بعد طے تھی کیونکہ 2017 میں بی جے پی نے یو پی الیکشن جیت لیا تھا تو ’میں امید کرتا ہوں کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ یو پی الیکشن کے نتائیج ہی مرکز میں حکومت کی کامیابی طے کرتے ہیں وہ یہ بھی کہنے کی ہمت کریں کہ 2024 کے عام انتخابات بھی بی جے پی ہی جیتے گی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ 'میں تمام بی جے پی کارکنان کی تعریف کروں گا جنھوں نے دن رات کی پرواہ کیے بغیر ان انتخابات میں لوگوں کا دل اور اعتماد جیتا'۔

ان کا کہنا تھا کہ ’چینلجز سے نمٹنے کے لیے انڈیا نے جو قدم اٹھائے اور فیصلے کیے ان سب ہی نے انڈیا کو آگے بڑھنے میں مدد دی، انڈیا بچ پایا ہے کیونکہ ہماری پالیسیاں زمین سے جڑی رہیں اور ہمارے ادارے آگے بڑھتے رہے‘۔

اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’کورونا کے وقت میں بھی ان لوگوں نے شہریوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ ویکسین پر ہم نے جو اقدامات کیے دنیا اس کی تعریفیں کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود ویکسین پر سوالات اٹھائے گئے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ غیر یقینی کے اس ماحول میں عوام اور خاص طور پر یو پی کے لوگوں نے اپنی دوراندیشی کا ثبوت دیا ہے۔

انھوں نے کہا ’یوکرین میں ہزاروں طلبا پھنسے ہوئے تھے تب بھی ملک توڑنے کی باتیں ہو رہی تھیں یہ لوگ ان بچوں میں غیر یقینی پیدا کر رہے تھے اور ان کے خاندان والوں کی فکر بڑھا رہے تھے۔‘

نریندر مودی نے خاص طور پر خواتین ووٹروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جن حلقوں میں خواتین نے مردوں سے زیادہ ووٹ ڈالے وہاں بی جے پی کو زبردست کامیابی ملی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے کی حکومتوں کے دوران لوگ بنیادی سہولیات کے لیے دفتروں کے چکر لگایا کرتے تھے اور ملک میں غریبوں کے نام پر اعلان اور منصوبے بنائے جاتے تھے لیکن ان کا فائدہ غریبوں تک نہیں پہنچتا تھا تاہم اب ایسا نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'میں غریب کے گھر تک اس کا حق پہنچائے بغیر چین سے بیٹھنے والا انسان نہیں ہوں'۔

یوکرین کی جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ابھی جو جنگ جاری ہے اس کا اثر دنیا کے ہر ملک پر پڑ رہا ہے۔ ’انڈیا امن کا حامی ہے اور ہر تنازع بات چیت سے حل کرنے کے حق میں ہے لیکن جو ملک لڑ رہے ہیں ان سے انڈیا کا معاشی، سیاسی اور تعلیمی سطح پر تعلق ہے۔ انڈیا باہر سے خام تیل اور دیگر اشیا منگواتا ہے ان کی قیمت عالمی منڈی میں تیزی سے بڑھ رہی ہے چاہے وہ کوئلہ ہو یا کھاد، سب کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اس لیے پوری دنیا میں مہنگائی بڑھ رہی ہے خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کو مشکلات سے گزرنا پڑے گا لیکن ہمارے حالیہ بجٹ پر نظر ڈالیں تو امید ہوتی ہے کہ انڈیا آگے بڑھ رہا ہے۔‘

راہل گاندھی

کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’میں عاجزی سے عوام کا فیصلہ تسلیم کرتا ہوں۔ جیتنے والوں کو مبارکباد۔‘ انھوں نے انتخابات میں پارٹی کے لیے کام کرنے پر کانگریس پارٹی کے تمام کارکنوں اور رضاکاروں کا بھی شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم اس نتیجے سے سبق سیکھیں گے اور انڈیا کے عوام کے لیے کام کرتے رہیں گے۔‘

ان انتخابات کے دوران ریاست گوا کی اسمبلی کی 40 نشستوں، منی پور میں 60 ، پنجاب میں 117، اتراکھنڈ میں 70 جبکہ اتر پردیش میں 403 نشستوں پر انتخابات ہوئے تھے۔

عام آدمی پارٹی کی پنجاب میں کامیابی کے بعد یہ دہلی سے باہر اس پارٹی کی پہلی حکومت ہو گی۔

سیاسی ماہرین کے مطابق بہتر کارکردگی نہ دکھانے والی اپوزیشن پارٹیاں ملک میں بڑھتی مہنگائی، کسانوں کے احتجاج اور دیگر مسائل سے برسراقتدار بی جے پی کے خلاف فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی ہیں جبکہ بی جے پی کو وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی حکمت عملی، جاری کی گئی فلاحی سکیموں، مبینہ طور پر فرقہ وارانہ بیان بازی اور ٹکٹوں کی بہتر امیدواروں میں تقسیم سے فائدہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔

بڑی اور اہم ریاست اُتر پردیش

ان ریاستوں میں سب سے بڑی اور اہم ریاست اتر پردیش ہے جس کی آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے اور بی جے پی اور کانگریس کے علاوہ اس ریاست میں سماج وادی پارٹی (ایس پی)، بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) اور راشٹریہ لوک دل جیسے علاقائی پارٹیاں بھی انتخابی دوڑ میں تھیں۔

غیر حتمی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُترپردیش میں بی جے پی کو سنہ 2017 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں کم سیٹوں سے فتح ملنے کا امکان ہے، فی الحال اس ریاست کی 403 نشستوں میں سے سامنے آنے والے نتائج کے مطابق بی جے پی 249 سیٹوں پر آگے ہے جبکہ ریاست کی اہم اپوزیشن پارٹی سماج وادی پارٹی 122 سیٹوں پر آگے ہے۔

یاد رہے کہ کانگریس 1980 کی دہائی کے آخر تک ریاست اترپردیش کی سب سے مقبول اور بڑی پارٹی تھی لیکن بابری مسجد کے انہدام کی تحریک اور ذات پات پر مبنی ریزرویشن کی تحریک کے بعد نچلی ذاتوں کی نمائندگی کرنے والی جماعتوں، ایس پی اور بی ایس پی، اور ہندو مفادات کی رہنمائی کرنے والی پارٹی بی جے پی نے اقتدار پر بتدریج اپنا قبضہ جمایا۔

سنہ 1989 سے تاحال ریاست میں جنتا پارٹی، ایس پی، بی ایس پی اور بی جے پی نے حکومت رہی ہے۔ اور موجود انتخابات میں بھی لگتا ہے کہ کانگریس حکمران جماعت کے طور پر اس ریاست میں واپس آنے میں ناکام رہے گی۔

نتائج کے مطابق اس الیکشن میں کانگریس اُتر پردیش میں محض ایک سیٹ پر باقی جماعتوں سے آگے ہے اور گذشتہ اسمبلی الیکشن کے مقابلے اس کے ووٹوں کی تعداد میں مزید کمی آئی ہے۔

کانگریس ریاست گوا، منی پور، اتراکھنڈ میں بھی ایک اہم طاقت ہونے کے باوجود بی جے پی کو ہرانے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔

اس ریاست میں انتخابات سے پہلے کے دنوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی فرقہ وارانہ یکطرفہ تقاریر کا غلبہ بھی رہا۔ ہندو مذہبی رہنماؤں نے کھلے عام ایسے بیانات دیے جن میں ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو کہا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

ان نتائج کو، خاص طور پر اترپردیش کے 2024 کے پارلیمانی انتخابات کے پیش خیمہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ اترپردیش اسمبلی کی 403 نشستیں ہیں مگر اس ریاست کی پارلیمانی سیٹیں 80 ہیں۔ سنہ 2019 کے انتخابات میں بی جے پی 62 سیٹیں حاصل کی تھی اور سنہ 2014 کے ا نتخابات میں 81 سیٹوں پر کامیاب رہی تھی۔

پنجاب

اسی طرح پنجاب میں، جہاں کانگریس برسراقتدار پارٹی تھی، عام آدمی پارٹی اسمبلی کی 117 میں سے 91 سیٹوں پر آگے ہے۔ پنجاب میں برسراقتدار بی جے پی کی ساکھ روایتی طور پر کمزور رہی ہے۔

گذشتہ برس کسانوں کے احتجاج میں پنجاب سب سے آگے تھا اور اس احتجاج سے کانگریس کو فائدہ ہونے کی امید تھی لیکن عام آدمی پارٹی ایک نیا متبادل دینے کے موقف کے بعد اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اگر عام آدمی پارٹی یہاں سے اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ تو یہ دہلی کے بعد پہلی ریاست ہے جہاں اس پارٹی کی حکومت بنے گی۔

عام آدمی پارٹی انڈیا میں بڑے پیمانے پر کرپشن کے خلاف تحریک چلانے کے باعث سنہ 2013 میں دہلی انتخابات میں نمایاں ہوئی تھی اور ملک میں اسے ایک نئے متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔

اس ریاست میں اپوزیشن جماعتیں مہنگائی، بے روزگاری، کسانوں کے احتجاج اور معیشت پر کورونا وائرس کے اثرات کی بنا پر بی جے پی کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔

سیاحتی مرکز:ریاست گوا

ریاست گوا کی 40 اسمبلی سیٹوں میں بی جے پی کو اب تک پانچ نشستوں پر کامیاب قرار دیا جا چکا ہے جبکہ 15 نشتوں پر اسے دیگر جماعتوں سے برتری حاصل ہے۔ اس ریاست میں کانگریس 11 سیٹوں پر سبقت لیے ہوئے ہے۔

یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بی جی پی اس ریاست میں اپنی برتری قائم رکھے گی۔

گوا سیاحت کے لیے بین الاقوامی سطح پر مشہور ہے اور یہاں کی 25 فیصد آبادی مسیحیوں برادری پر مشتمل ہے۔ اگرچہ بی جے پی گائے ذبیحہ کے خلاف ہے لیکن گوا میں بی جے پی کی اس حوالے سے رائے مختلف ہے۔

اتراکھنڈ

ریاست اتراکھنڈ میں بی جے پی 70 سیٹوں پر سبقت لیے ہوئے ہے جبکہ کانگریس 18 نشستوں پر آگے ہے۔ اس ریاست میں انتخابی مہم کے دوران وزیر داخلہ امت شاہ نے کانگریس پر الزام لگایا تھا کہ پارٹی روہنگیا مسلمانوں کو ریاست میں جگہ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ پہاڑی ریاست سنہ 2000 تک ریاست اُتر پردیش کا حصہ ہوا کرتی تھی تاہم بعد میں اسے علیحدہ ریاست بنا دیا گیا۔

منی پور

شمال مشرقی ریاست منی پور کی 60 سیٹوں میں سے بی جے پی دس سیٹوں پر فاتح قرار پائی ہے جبکہ 12 نشستوں پر اس کے امیدواروں کو حریفوں پر برتری حاصل ہے۔ اس ریاست میں دہائیوں سے عسکریت پسندی کا مسئلہ رہا ہے تاہم حالیہ برسوں میں اس میں کمی ہوئی ہے اور ریاستی انتخابات میں عسکریت پسندی ایک اہم موضوع گفتگو تھا۔