افغانستان میں خواتین کی یونیورسٹی تعلیم بحال مگر خواتین اپنے مستقبل کے حوالے سے تاحال فکرمند

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, لارا اووِن
- عہدہ, بی بی سی ہنڈرڈ ویمن
قندھار میں یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہوتے وقت رعنا گھبرائی ہوئی تھیں۔ چھ ماہ پہلے ہی طالبان نے ملک کا نظم و نسق سنبھالنے کے بعد خواتین سے کہا تھا کہ وہ حصولِ تعلیم اور ملازمت کا سلسلہ روک دیں۔
بدھ 2 فروری کو بعض سرکاری یونیورسٹیاں طلبا اور طالبات کے لیے پھر سے کھول دی گئیں۔ چھ ماہ قبل طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی مرتبہ طلبہ کو کیمپس جانے کا موقع ملا تاہم طالبات کی تعداد معمول سے کم تھی۔
رعنا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں بہت گھبرائی ہوئی تھی اور حفاظت پر طالبان مامور تھے مگر انھوں نے ہمیں پریشان نہیں کیا۔‘
’بہت سی چیزیں معمول کے مطابق محسوس ہوئیں، جیسے کہ پہلے تھیں۔ مرد و خواتین ایک ہی کمرے میں تھے کیونکہ ہماری یونیورسٹی چھوٹی ہے، لڑکے اگلی نشستوں پر اور ہم پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔‘
البتہ دوسری جامعات میں لڑکوں اور لڑکیوں کو علیحدہ رکھا گیا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ہرات میں تھرڈ ایئر کی ایک طالبہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اُنھیں کہا گیا ہے کہ وہ دن میں صرف چار گھنٹے کیمپس میں رہ سکتی ہیں، کیونکہ باقی وقت لڑکوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔
افغانستان واحد ملک ہے جہاں لڑکیوں کے حصول تعلیم کو محدود کر دیا گیا ہے۔
طالبان حکومت کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے میں ان کی خواتین سے متعلق پالیسی ایک بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔ لڑکیوں کے ثانوی تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہے۔ امورِ خواتین کی وزارت کو ختم کر دیا گیا ہے اور بہت سی خواتین کو ملازمت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
خواتین کو حجاب پہننے کی ہدایت جاری کی گئی تاہم 1990 کی دہائی کی طرح انھیں برقعہ پہننے کو نہیں کہا گیا۔
نئی طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ اسے خواتین کے تعلیم حاصل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔
مگر محکمۂ تعلیم کے حکام کا کہنا ہے کہ طالبان لڑکیوں کی کلاسیں لڑکوں سے الگ کرنا چاہتے ہیں اور نصاب کو ’اسلامی اصول‘ کے مطابق بنانا چاہتے ہیں اور لڑکیوں کے لیے حجاب لازمی قرار دیا گیا ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
’میرا خواب ڈاکٹر بننا تھا‘
افغانستان کے صرف چھ گرم صوبوں میں سرکاری جامعات کھولی گئیں ہیں جن میں لغمان، ننگرہار، قندھار، نیمروز، فراہ اور ہلمند شامل ہیں۔
دارالحکومت کابل سمیت ملک کے سرد حصوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے فروری کے آخر تک اعلیٰ تعلیمی اداروں کے کھلنے کی توقع نہیں۔
کابل یونیورسٹی میں سول انجینیئرنگ کی طالبہ ہدیٰ کا کہنا ہے کہ ’کئی ماہ تک گھر پر بیٹھے رہنے کے بعد یہ اچھی خبر ہے مگر میں جانتی ہوں کہ بہت سے اساتذہ افغانستان چھوڑ گئے ہیں۔‘
بی بی سی پشتو کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کی تین بڑی جامعات کابل، ہرات اور بلخ کے 299 پروفیسر ملک سے جا چکے ہیں۔
سنہ 1996 سے سنہ 2001 تک طالبان کے پہلے دور حکومت میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم اور ملازمت پر پابندی تھیں۔ اس لیے اس بار خواتین کے یونیورسٹی جانے کا محتاط خیر مقدم کیا گیا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’یہ انتہائی اہم ہے کہ ہر نوجوان کی تعلیم تک رسائی ہو۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اگرچہ جن خواتین نے طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے اپنا اندراج کروایا تھا ان کے لیے یونیورسٹیاں کھل گئی ہیں مگر لڑکیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم تک سفر کے بارے میں بہت کچھ غیر یقینی ہے۔
گیارہویں جماعت میں پڑھنے والی صوبہ تخار کی 17 سال کی مہوش کا کہنا ہے کہ ’میرا خواب تھا کہ میں یونیورسٹی جاؤں اور ڈاکٹر بنوں۔ اب جبکہ میں نے سنا ہے کہ طالبان لڑکیوں کو یونیورسٹی جانے دے رہے ہیں، مجھے پوری امید ہے کہ وہ ہمیں اعلیٰ ثانوی اور پھر یونیورسٹی میں اپنی تعلیم جاری رکھنے دیں گے۔‘
’میں واقعی گھر سے نہیں نکل سکتی‘
بعض حلقوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ طالبان لڑکیوں کے لیے تعلیم محض چند شعبوں تک محدود کر دیں گے۔
کابل میں سول انجینیئرنگ کی ایک طالبہ نے کہا کہ انھیں صدمہ ہوا جب انھوں نے حال ہی میں طالبان کے ترجمان برائے تعلیم کو یہ کہتے سنا کہ خواتین کے سیاستدان یا انجنیئر بننے کا کوئی جواز نہیں کیونکہ یہ ’مردانہ کام‘ ہیں۔
اسی طرح کابل یونیورسٹی میں شعبۂ فنون (آرٹس) کی طالبات نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ غیر یقینی کا شکار ہیں کہ آیا طالبان لڑکیوں کو آرٹس میں ڈگری کے حصول کی اجازت دیں گے یا نہیں۔
اینجلا غیور، جنھوں نے دور دراز علاقوں میں خواتین اور لڑکیوں کو پڑھانے کے لیے آن لائن ہرات سکول شروع کر رکھا، یونیورسٹیوں کے کھلنے پر تذبذب کا شکار ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں طالبان نصاب کے اندر مزید شریعت اور اسلام سے متلعق مضامین شامل کریں گے۔ لڑکیوں کے کھیلوں پر پابندی ہے اور انھیں خود کو ڈھانپنا پڑتا ہے۔ میرے خیال میں طالبان کی تعلیم لڑکیوں کی انتخاب کی آزادی ختم کر دے گی اور یہی میری سب سے بڑی پریشانی ہے۔ مجھے واقعی ڈر ہے۔
’جیسے حالات ہیں، ان میں تو اگر لڑکیاں تعلیم یافتہ ہو بھی جائیں تو وہ ملازمت نہیں کر سکتیں۔‘
ثریا ہرات یونیورسٹی کی گریجویٹ ہیں، ان کے پاس ڈگری ہے مگر حالیہ پابندیوں کی وجہ سے وہ ملازمت نہیں کر سکتیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں گھر سے نہیں نکل سکتی۔ وہ کہتے ہیں کہ عورتوں کو نوکری نہیں کرنی چاہیے، یا ایسی جگہ کرنی چاہیے جہاں پر تمام خواتین ہوں مگر ایسی جگہیں بہت تھوڑی ہیں جہاں مرد نہ ہوں۔‘
یہ بھی پڑھیے
بین الاقوامی دباؤ
یونیورسٹیاں کھلنے کا عمل طالبان کے ناروے میں مغربی حکام سے مذاکرات کے بعد شروع ہوا ہے، جن میں طالبان پر زور دیا گیا کہ اگر وہ غیر ملکی امداد تک رسائی اور بیرون ملک افغانستان کے اثاثے غیر منجمد کروانا چاہتے ہیں تو انھیں خواتین کے حقوق میں بہتری لانا ہوگی۔
افغانستان میں، جو کئی دہائیوں کے جنگ و جدل کی وجہ سے پہلے ہی تباہ حال تھا، بیرونی امداد کے بند ہونے کے بعد انسانی بحران بد تر ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 95 فیصد افغانوں کے پاس خوراک کی کمی ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
مزار شریف میں میڈیکل کی ایک طالبہ نے بی بی سی کو بتایا کہ یونیورسٹی واپس جانا اب ان کی ترجیح نہیں رہی۔ ’ہم فاقوں پر مجبور ہیں۔ میرے والد سابقہ حکومت کے لیے کام کرتے تھے مگر طالبان کے آنے کے بعد سے وہ بے روزگار ہیں۔ ظاہر ہے کہ میرے والد اب میری تعلیم کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے۔ مجھے کتابوں کی ضرورت ہے، کپڑوں کی ضرورت ہے، مگر ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔‘
اور جن کے پاس وسائل ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس پیشرفت کے بارے میں ان کے ملے جلے تاثرات ہیں۔
تخار کی ایک طالبہ، جن کی جامعہ 27 فروری کو کھل رہی ہے، کہتی ہیں کہ ’ہمارا بہت سا تعلیمی وقت ضائع ہوا اور اگرچہ میں خوش ہوں کہ وہ کھولنا چاہتے ہیں مگر اب بہت سے نئے ضابطے ہیں جن پر یونیورسٹی میں رہتے ہوئے عمل کرنا پڑے گا۔ کچھ باتیں ہیں جن سے میں مطمئن نہیں ہوں، جیسا کہ یونیورسٹی جانے کے لیے کسی محرم کا ساتھ ہونا۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
پشتنہ درانی ’لرن افغانستان‘ کی بانی ہیں جو ملک میں سکول چلانے کے ساتھ خواتین اور لڑکیوں کے لیے فاصلاتی تعلیم کا انتظام بھی کرتی تھیں مگر طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ امریکہ چلی گئیں۔ ان کے لیے یہ خبر تلخ و شیریں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’بظاہر یہ امن کا اشارہ ہے اور ہمیں اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے مگر ایک افغان لڑکی ہونے کے ناطے جسے اپنا ملک چھوڑنا پڑا، اپنی یونیورسٹی بند کرنا پڑی، مجھے دکھ بھی ہو رہا ہے۔‘
پشتنہ بتاتی ہیں کہ ان کی طرح ان کی کئی سہیلیوں کو، جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں مصروف تھیں، افغانستان چھوڑنا پڑا۔

،تصویر کا ذریعہPashtana Durrani
’اگرچہ وہ جامعات پھر سے کھول رہے ہیں مگر ملک کئی اچھے لوگوں سے محروم ہو گیا ہے۔‘
دوسری جانب رعنا اپنے اور اپنی سہیلیوں کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کا شکار ہونے کے باوجود اپنی توجہ اپنی تعلیم پر مرکوز رکھنا چاہتی ہیں۔
’میری بہت سی ہم جماعت لڑکیاں (پہلے دن) نہیں آئیں مگر مجھے توقع ہے کہ مستقبل قریب میں زیادہ لڑکیاں یونیورسٹی آتے ہوئے خود کو محفوظ سمجھیں گی۔‘
*حفاظتی نقطۂ نظر سے بعض افراد کے فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں.













