نریندر مودی: انڈیا کے وزیر اعظم کی سکیورٹی میں 15 منٹ کی ’کوتاہی‘، سکیورٹی انتظامات کا ریکارڈ عدالت کے حوالے کرنے کا حکم

نریندر مودی، سکیورٹی

،تصویر کا ذریعہANI

،تصویر کا کیپشنوزیراعظم کا قافلہ سرحدی گاؤں حسینی والا سے 30 کلومیٹر پہلے ایک فلائی اوور پر 15 سے 20 منٹ تک پھنس گیا تھا

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ پنچاب کے دوران حفاظتی انتظامات میں مبینہ کوتاہی کے معاملے میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے سکیورٹی انتظامات کا ریکارڈ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل کے حوالے کرنے کی ہدایت کی ہے۔

مودی اس ہفتے بدھ کو پنجاب کے ضلع فیروزپور میں ایک ریلی سے خطاب کرنے جا رہے تھے جب کچھ مظاہرین نے سڑک بلاک کر دی۔ وزیراعظم کا قافلہ سرحدی گاؤں حسینی والا سے 30 کلومیٹر پہلے ایک فلائی اوور پر 15 سے 20 منٹ تک پھنس گیا تھا۔

واضح کر دیں کہ مرکزی حکومت اور حکومت پنجاب دونوں نے اس معمالے کی تفتیش کے احکامات جاری کیے تھے۔ لیکن جمعے کو چیف جسٹس این وی رمنا، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہیما کوہلی کے بینچ نے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل سے مودی کے دورے کے ریکارڈ کو محفوظ کرنے کو کہا ہے۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے پنجاب پولیس اور مرکزی ایجنسیوں کو وزیر اعظم کے دورہ پنجاب کے دوران سکیورٹی انتظامات کا ریکارڈ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل کے حوالے کرنے کی ہدایت کی ہے۔

اس معاملے میں عدالت نے پنجاب پولیس، ایس پی جی (اہم رہنماؤں کے لئے مخصوص حفاظتی دستہ) اور دیگر ایجنسیوں کو تمام ضروری مدد فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔

سپریم کورٹ نے یہ ہدایات وزیراعظم کی سکیورٹی میں مبینہ کوتاہی سے متعلق دائر کی گئی ایک درخواست کی سماعت میں دی ہیں۔ درخواست میں وزیر اعظم کی سیکیورٹی میں مبینہ کوتاہی کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے عدالت کو دی گئی درخواست میں وزیر اعظم مودی کی سکیورٹی میں ہونے والی مبینہ لاپرواہی کو سرحد پار دہشت گردی کے زاویہ کو بھی شامل کیا ہے۔

عدالت میں پنجاب کے ایڈوکیٹ جنرل ڈی ایس پٹوالیا نے کہا کہ ریاستی حکومت پورے معاملے کی منصفانہ تحقیقات چاہتی ہے اور وہ اسے غیر سنجیدہ طریقے سے نہیں لے رہی ہے۔

پٹوالیا نے کہا کہ اس پورے معاملے میں کہیں نہ کہیں کوتاہی ہوئی ہے اور ریاستی حکومت اس مسئلے پر سنجیدہ ہے۔ پٹوالیا نے کہا کہ اس معاملے میں ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کسی کو بھی تحقیقات کے لیے مقرر کر سکتی ہے اور پنجاب حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

انڈیا کے وزیر اعظم کے دورہ پنجاب کے دوران کیا ہوا تھا؟

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی پنجاب میں ایک فلائی اوور پر قریباً 15 سے 20 منٹ تک پھنسے رہے اور انڈیا میں اس واقعے کو سکیورٹی کی ایک ’سنگین کوتاہی‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ نریندر مودی نے ریاستی انتخابات سے قبل فیروزپور شہر میں ایک جلسے سے بھی خطاب کرنا تھا لیکن وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ سکیورٹی کی اس کوتاہی کی وجہ سے مودی کا قافلہ ایئرپورٹ واپس لوٹ گیا۔

شیڈول کے مطابق نریندر مودی کو شمالی ریاست میں ایک یادگار کا دورۂ کرنا تھا مگر اسی راستے پر کسان احتجاج کر رہے تھے اور ٹریفک آمد و رفت کے لیے بند تھی۔ یہ مظاہرین وہاں کابینہ کے اس وزیر کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے جن کے بیٹے پر کسانوں کے قتل کا الزام ہے۔

یاد رہے کہ مذکورہ وزیر اجے مشرا کی ایک کار ریاست اترپردیش میں کسانوں کے احتجاج میں اچانک گھس گئی تھی اور اس سے چار لوگ مارے گئے تھے۔ کسانوں کا الزام ہے کہ اس حملے کے پیچھے وزیر کے بیٹے اشیش مشرا تھے۔ تاہم انھوں نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

انڈین وزیر اعظم بدھ کی صبح بھٹنڈہ ایئرپورٹ پہنچے تھے اور شیڈول کے تحت انھیں قومی شہدا کی یادگار جانا تھا اور اس کے بعد ایک ہیلی کاپٹر میں روانہ ہو کر جلسے سے خطاب کرنا تھا۔

مگر یہ دورۂ خراب موسم کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا تھا۔ جب حد نگاہ بہتر نہ ہوئی تو ان کا قافلہ سڑک کے راستے روانہ ہوا۔ یہ یادگار سے قریب 30 کلومیٹر دور مظاہرین کی وجہ سے پھنس گیا۔

انڈین وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ انھوں نے پنجاب حکومت سے ’سکیورٹی میں بڑی کوتاہی‘ پر تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ طریقۂ کار کے تحت انھیں سکیورٹی اور ہنگامی حالات کے منصوبے سمیت ضروری انتظامات کرنا تھے۔

کانگریس اس واقعے پر کیا کہتی ہے؟

اس واقعے کے بعد انڈیا میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتی دکھائی دیں۔ مرکزی حکمراں جماعت بی جے پی نے اس کا الزام ریاست میں کانگریس جماعت کی حکومت پر لگایا ہے۔

جبکہ کانگریس کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ مودی کی ریلی میں کرسیاں خالی تھیں اس لیے انھوں نے سکیورٹی کا بہانہ بنا کر براستہ سڑک واپس جانا بہتر سمجھا۔

سابق آئی پی ایس افسر یشو وردھن آزاد کا ماننا ہے کہ وزیر اعظم کے قافلے کا سرحدی علاقے میں تقریباً 15 منٹ تک رہنا سکیورٹی کی ایک بہت بڑی کوتاہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بڑی غلطی اس لیے ہوئی ہے کہ ایک سرحدی ریاست میں اگر وزیر اعظم کا قافلہ کسی پُل پر 15-20 منٹ تک قیدی کی طرح کھڑا رہتا ہے تو یہ سکیورٹی کے نقطہ نظر سے ایک سنگین معاملہ ہے۔‘

’اس لیے کہ وزیر اعظم جہاں بھی جاتے ہیں، وہاں کی ذمہ داری ایس پی جی (سپیشل پروٹیکشن گروپ) کی ہوتی ہے، لیکن سکیورٹی کی مجموعی ذمہ داری ریاستی حکومت کی ہوتی ہے۔‘آزاد کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی حفاظت کو بہت زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اس لیے ان کا ایسی صورتحال میں صرف بُلٹ پروف کار کے اندر رہنا بہت بڑی غلطی ہے۔

نریندر مودی، سکیورٹی، ایس پی جی، فائل فوٹو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایک سابق سینیئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ کسی ریاست میں امن و امان کی ذمہ داری پولیس پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن جب وزیر اعظم کی بات آتی ہے تو ان کی سکیورٹی میں ایس پی جی کو بھی تعینات کیا جاتا ہے۔

ان کے مطابق ’ایس پی جی کی ٹیمیں وزیر اعظم کے کسی بھی دورے میں سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے پیشگی جاتی ہیں۔ مقامی انٹیلیجنس حکام سے ملاقاتیں کرتی ہیں۔ کہاں کیا انتظام ہونا چاہیے، روٹ کیا ہونا چاہیے، وہ سب کچھ طے کرتے ہیں۔ باہری دائرے میں پولیس اور اندرونی دائرے میں ایس پی جی سکیورٹی فراہم کرتی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے دورے سے پہلے ریاستی حکومت کو مطلع کیا جاتا ہے اور وزیر اعظم کی سکیورٹی کے نقطہ نظر سے ہر طرح کی تیاری کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

وہ اسے ایک غلطی قرار دینے کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ تحقیقاتی رپورٹ آنے تک انتظار کرنا چاہیے۔

آزاد کا کہنا ہے کہ ’بٹھنڈہ سے فیروزپور کا فاصلہ تقریباً 110 کلومیٹر ہے۔ بھٹنڈہ ایئرپورٹ پر پہنچنے کے بعد وزیر اعظم کو آگے جانا پڑا لیکن موسم خراب تھا۔ وہاں کچھ دیر رُک کر موسم کے بہتر ہونے کا انتظار کیا گیا۔ لیکن اس کے بعد سڑک کے راستے سے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایسے میں ریاستی حکومت کی جانب سے ہنگامی تیاری بھی کی جاتی ہے، ویسے بھی وزیر اعظم کے دورے کے لیے متبادل راستے بھی تیار ہوتے ہیں۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ ’جب وزیر اعظم کے راستے کو سڑک سے جانے کے لیے کلیئرنس دی گئی تو یہ واضح ہو گا کہ پولیس نے کہا ہو گا کہ وہ اس راستے کو صاف کر دے گی۔ جب وزیر اعظم کا قافلہ چلے گا، ریاستی پولیس آگے بڑھے گی۔‘

نریندر مودی، سکیورٹی

،تصویر کا ذریعہANI

آزاد کا یہ بھی ماننا ہے کہ پورے 110 کلومیٹر طویل راستے پر ہر جگہ پولیس کو تعینات نہیں کیا جا سکتا، لیکن وزیر اعظم کی سکیورٹی کے لیے مکمل انتظامات ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ لوگوں نے ان کا راستہ بلاک کیا۔ یعنی وزیر اعظم کا قافلہ کس سڑک سے جا رہا تھا یہ معلومات لیک ہوئیں۔ موبائل فون کے دور میں اور 110 کلومیٹر طویل روٹ پر یہ غلطی نہیں۔ یہ معلومات عام ہو سکتی تھی۔ مگر لوگ وہاں جمع ہوئے، یہ غلطی تھی۔ وہ کسان تھے اور انھوں نے سڑک بلاک کر رکھی تھی۔ پولیس کے ایڈوانس یونٹ نے وزیر اعظم کی کار پیچھے رکھی اور وہ آگے مذاکرات کرنے چلے گئے۔‘

آزاد کہتے ہیں کہ اس دوران جو کچھ ہوا، پولیس نے جو طریقہ اپنایا، وہ وزیر اعظم کی سکیورٹی کے لحاظ سے بہت خطرناک تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آپ عام دنوں میں مظاہرین سے بات کر سکتے ہیں لیکن وزیر اعظم کے قافلے کے راستے میں نہیں۔ پولیس کو فوراً راستہ صاف کر دینا چاہیے تھا۔ چاہے وہ زبردستی ہی کیوں نہ ہو۔‘

پولیس کی جانب سے طاقت کا استعمال نہ کرنے کے پیچھے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ آج کل جو کارروائی کوئی کرتا ہے، وہی کارروائی مخالف طرف سے بھی کی جاتی ہے۔

انڈیا کے وزیر اعظم کی سکیورٹی کا کیا پروٹوکول ہے؟

آزاد بتاتے ہیں کہ انڈیا کے وزیر اعظم کے کسی دورے سے پہلے بہت وسیع سطح پر تیاریاں کی جاتی ہیں۔

ان کے بقول اگر وزیراعظم کسی انتخابی جلسے میں جاتے ہیں تو مختلف تیاریاں کی جاتی ہیں۔ اگر وہ کسی پروگرام میں یا ریلی میں جاتے ہیں تو اس کی تیاری مختلف ہوتی ہے لیکن اس کی تیاری میں ہر قدم کا خیال رکھا جاتا ہے۔

پی ٹی آئی بھاشا کے مدیر اور طویل عرصے تک پی ایم او کی کوریج کرنے والے صحافی نرمل پاٹھک کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی سکیورٹی میں ایسی کوتاہی بہت بڑی بات ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم سے پہلے اس جگہ ایس پی جی کی ٹیم جاتی ہے اور یہاں کی ریکی کرتی ہے۔ ایس پی جی دستہ یہاں تعینات کیا جاتا ہے۔ انڈیا میں انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کا ادارۂ بھی ان سے مسلسل رابطے میں ہوتا ہے۔

نریندر مودی، سکیورٹی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انڈیا میں وزرا اعظم کو سکیورٹی فراہم کرنے والا ادارہ ایس پی جی

سپیشل سکیورٹی گروپ یا سپیشل پروٹیکشن ٹیم سال 1985 میں قائم کی گئی تھی جس کا مقصد انڈیا میں وزیراعظم، سابق وزرا اعظم اور ان کے قریبی افراد کو سکیورٹی فراہم کرنا ہے۔

اسے 1984 میں اندرا گاندھی کے قتل کے چند سال بعد 1988 میں مکمل طور پر تشکیل دیا گیا تھا۔

ایس پی جی کا سالانہ بجٹ 375 کروڑ روپے سے زیادہ ہے اور اسے ملک کا سب سے مہنگا اور مضبوط سکیورٹی سسٹم سمجھا جاتا ہے۔