گڑگاؤں نماز تنازعہ: انڈیا کے دارالحکومت سے ملحق گڑگاؤں میں کھلی جگہوں پر جمعے کی نماز پڑھنے سے متعلق تنازعہ تاحال جاری

    • مصنف, نیاز فاروقی
    • عہدہ, بی بی سی، نئی دہلی

انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کے پڑوسی شہر گڑگاؤں میں جمعے کی نماز کھلی جگہوں پر پڑھنے پر اس ہفتے بھی تنازعہ جاری رہا۔

شہر کے سیکٹر 12 کے نامزد مقام پر مسلسل دوسرے ہفتے بھی جمعہ کی نماز نہیں ہوئی۔ گذشتہ ہفتے جمعہ کے روز وہاں ہندو جماعتوں نے گووردھن پوجا کی تھی۔

ہندو جماعتوں نے کھلے اور عوامی مقامات پر نماز پڑھنے کے خلاف اس جمعہ کو بھی احتجاج کیا۔ کم از کم ایک جگہ پر جمعہ نماز کے وقت جے شری رام کے نعرے لگائے گئے اور ضلع میں کم از کم پانج منظور شدہ جگہوں پر نماز نہیں ہوئی۔

این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق سیکٹر 12 کا وہ مقام جہاں پہلے نماز ہوتی تھی گذشتہ ہفتے سے گوبر سے بھرا ہوا ہے اور آج وہاں موجود ایک ہندو نوجوان کے مطابق ان کا منصوبہ والی بال کورٹ بنانے کا ہے۔

آج دوپہر کو شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’ہندو گروپوں کے لوگ یہاں موجود ہیں، یہاں بیٹھے ہیں، کھانا کھا رہے ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ وہ کسی بھی قیمت پر نماز کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

گروگرام میں کھلی اور خالی عوامی جگہوں پر نماز پڑھنے کے خلاف احتجاج مہینوں سے جاری ہے جس میں گروگرام کے کچھ محلوں کے رہائشی اور دائیں بازو کے جماعتیں شامل ہیں۔

دو نومبر کو مقامی لوگوں کی طرف سے مخالفت کا حوالہ دیتے ہوئے گروگرام انتظامیہ نے 37 میں سے آٹھ مقامات پر نماز پڑھنے کی اجازت واپس لے لی۔ یہ وہ مقامات تھے جو ہندوؤں اور مسلمانوں نے 2018 میں اسی طرح کے مظاہروں کے بعد اتفاق رائے سے نامزد کیے تھے۔

انتظامیہ نے کہا تھا کہ یہ قدم ’اعتراضات‘ ہونے کی وجہ سے اٹھایا گیا ہے اور متنبہ کیا کہ اگر اسی طرح کے ’اعتراضات‘ دوسری جگہوں پر ہوئے تو ’وہاں بھی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

ان جگہوں میں عوامی اور نجی دونوں شامل ہیں اور مقامی مسلمانوں کے مطابق آبادی کے تناسب کے لحاظ سے مساجد کی کمی لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ کھلی جگہوں پر جمعہ کی نماز پڑھیں۔

’گڑگاؤں ناگرک ایکتا منچ‘ نامی تنظیم کے شریک بانی الطاف احمد نے بی بی سی کے نیاز فاروقی کو بتایا کہ ’2018 سے پہلے پورے ضلع میں 108 نامزد مقامات تھے جہاں آپ جمعے کی نماز پڑھ سکتے تھے لیکن یہ کم ہو کر 37 ہو گئے اور اب انھیں مزید کم کر دیا گیا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ایک دفعہ میں نہیں لیکن آہستہ آہستہ یہ دوسری جگہوں کو بھی نشانہ بنائیں گے۔ اسے پورے ملک میں مسلمانوں کو دبانے کی جو لہر چلی ہے اس پیشرفت کو اسی سیاق و سباق میں دیکھنا چاہیے۔‘

’سمیکت ہندو سنگھرش سمیتی‘ نامی تنظیم جو کہ گروگرام میں نماز کے خلاف احتجاج میں سب سے آگے ہیں، کے رہنما مہاویر بھاردواج کے مطابق مسلم وہاں صرف پریشانی کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ انھیں ’صرف نماز ادا کرنے کے لیے جگہ نہیں چاہیے، انھیں تو قبضہ کرنے کے لیے جگہ چاہیے۔۔۔ یہ صرف قبضہ جہاد ہے، جس کو ہم نہیں ہونے دیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

دوسرے مقاموں کی طرح سیکٹر 12 بھی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جمعہ کی نماز کے لیے نامزد کردہ جگہوں کی فہرست میں تھا اور یہ ان جگہوں میں بھی شامل نہیں تھا جہاں حکام نے تین نومبر کو نماز پڑھنے کی منظوری واپس لے لی تھی۔

تاہم گذشتہ سنیچر کو ہندو جماعتوں نے وہاں پوجا کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے جواب میں مسلمانوں نے نماز نہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ نماز کے وقت دائیں بازو کی ہندو جماعتوں نے وہاں جمع ہو کر گووردھن پوجا کی اور مسلم مخالف نعرے لگائے۔

مثال کے طور پر ’سیکٹر 12 جھانکی ہے، پورا گروگرام باقی ہے‘ کا نعرہ لگا جو کہ بابری مسجد کے انہدام سے پہلے لگایا جانے والا نعرہ 'ایودھا تو بس جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے' کی نقل کرتا ہے۔ جھانکی کا مطلب مثال ہے، ’سیکٹر 12 ایک مثال ہے، پورا گروگرام باقی ہے۔‘

اس سے پہلے 29 اکتوبر کو پولیس نے سیکٹر 12 میں نماز کے خلاف احتجاج کرنے والے 30 مظاہرین کو حراست میں لیا تھا جو کہ جے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے۔

ایک وسیع پیمانے پر شیئر کی گئی ویڈیو میں 'گروگرام انتظامیہ، نیند سے جاگو' کا اشتہار لے کر کھڑے ہوئے نظر آرہے تھے۔

گذشتہ ماہ بھی گروگرام کے کئی اور علاقوں میں احتجاج ہوئے تھے جن میں لوگوں نے 'جئے شری رام' کے نعرے لگائے اور اشتہار دکھائے جس میں 'کھلی جگہوں پر نماز بند' کرنے کا مطالبہ تھا۔

ان مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ 'روہنگیا پناہ گزین' نماز پڑھنے کے بہانے علاقے میں جرائم کر رہے ہیں۔

ہریانہ کے وزیر اعلیٰ ایم ایل کھٹر نے کہا ہے کہ ہر ایک کو نماز پڑھنے کا حق ہے لیکن 'نماز ادا کرنے والوں کو سڑک کی ٹریفک کو نہیں روکنا چاہیے۔‘

واضح کر دیں کہ گروگرام میں دنیا بھر کی بڑی کمپنیوں کا دفاتر ہیں اور وہاں رہنے والوں میں ایک اچھی خاصی تعداد پڑھے لکھے اور امیر ترین لوگوں کی ہے جو گروگرام میں یا دہلی میں ملازمت کرتے ہیں یا کاروبار چلاتے ہیں۔