آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
1971 کی جنگ: اندر گل جنھوں نے اندرا گاندھی سے ملاقات کے دوران واک آؤٹ کیا اور فوجی جنرل سیم مانیکشا سے ٹکر لی
- مصنف, ریحان فضل
- عہدہ, بی بی سی ہندی، دہلی
انڈیا اور پاکستان کے درمیان سنہ 1971 کی پوری جنگ کے دوران ہمیشہ یہ خطرہ رہتا تھا کہ چین مداخلت کر کے پاکستان کی طرف سے انڈیا پر حملہ نہ کر دے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے جنرل مانیکشا نے بھوٹان کی سرحد پر 167، 5 اور 123 ماؤنٹین بٹالین تعینات کر رکھی تھی۔
مشرقی کمانڈ کے چیف آف سٹاف جنرل جیکب نے دلی میں آرمی ہیڈ کوارٹر میں ڈائریکٹر جنرل (ملٹری آپریشنز) جنرل اندرجیت سنگھ گل کو مطلع کیا کہ وہ ان بٹالینز کو وہاں سے ہٹا کر بنگلہ دیش کی جنگ میں لے جا رہے ہیں۔
مانیکشا کی مخالفت کے باوجود اندرجیت اس تجویز پر راضی ہو گئے۔
جب مشرقی کمان کے سربراہ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے فوری طور پر جنرل مانیکشا کو اس کی اطلاع دی۔ دو گھنٹے کے اندر مانیکشا کا جواب آیا، ’میں نے کسی بھی عورت سے زیادہ تمھارا خیال رکھا ہے۔ تمھیں کس نے کہا ہے کہ ان بریگیڈز کو شمالی سرحد سے ہٹا لیا جائے؟ تم انھیں فوراً اسی جگہ واپس بھیج دو۔'
یہ سننا تھا کہ جنرل اروڑا کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ مانیکشا کا پیغام ہاتھ میں لے کر جنرل جیکب کے کمرے میں داخل ہوئے۔
جنرل جیکب اپنی کتاب 'سرینڈر ایٹ ڈھاکہ: برتھ آف اے نیشن' میں لکھتے ہیں: 'میں نے اندر گل کو فون کیا اور کہا کہ ہم ان بریگیڈز کو واپس نہیں بھیج سکتے کیونکہ اس میں ہفتوں لگیں گے۔‘
'اب بہترین طریقہ یہ ہے کہ مانیکشا کو یقین دلایا جائے کہ چین اس لڑائی میں نہیں اترے گا۔ گل نے مجھ سے مکمل اتفاق کیا، لیکن مجھ سے وعدہ لیا کہ اس کی منظوری کے بغیر میں مشرقی پاکستان میں ان فوجیوں کو استعمال نہیں کروں گا۔
'آٹھ دسمبر کو میری اور اندر گل کی بار بار درخواستوں کے بعد بالآخر مانیکشا مان گئے کہ چینی اس لڑائی میں شامل نہیں ہوں گے۔ چنانچہ انھوں نے 5 اور 167 ماؤنٹین بریگیڈز کے استعمال کی اجازت دی۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
'اس سے قبل اندر گل کی پہل پر 123 ماؤنٹین بریگیڈ کو مغربی سرحد پر ہوائی جہاز کے ذریعے منتقل کیا گیا تھا، جہاں انڈین فوجی اچھی کارکردگی پیش نہیں کر رہے تھے۔ اندر گل نے ایک بار پھر دکھایا کہ ان کے پاس صورتحال کا جائزہ لینے، ذمہ داری لینے اور فیصلے لینے کی حیرت انگیز صلاحیت ہے۔
مانیکشا کا غصہ
جنرل اندرجیت سنگھ گل کی سوانح عمری 'بورن ٹو ڈیئر' کے مصنف ایس متھیا لکھتے ہیں: 'اندر کو مانیکشا کے غصے کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔
'جب چھ دسمبر کو جیکب نے ڈھاکہ پر دباؤ بڑھانے کے لیے ان بریگیڈز کی تعیناتی کا مطالبہ کیا تو اندر نے انھیں اپنی ذمہ داری پر ایسا کرنے کی اجازت دی۔
'جب مانیکشا کو اس کا علم ہوا تو ان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا لیکن گل اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ انھوں نے مانیکشا کو یقین دلایا کہ ان فوجیوں کو ان کی اجازت کے بغیر مشرقی پاکستان میں استعمال نہیں کیا جائے گا۔
مکتی باہنی کی تربیت کا منصوبہ
جب مشرقی پاکستان میں ایکشن کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی اس وقت جنرل کے کے سنگھ ڈائریکٹر جنرل (ملٹری آپریشنز) تھے لیکن پھر اگست سنہ 1971 میں انھیں ترقی دے کر ایک کور کا جنرل آفیسر کمانڈنگ بنا دیا گیا۔
ان کی جگہ مانیکشا میجر جنرل اے ووہرا کو لانا چاہتے تھے لیکن وہ برطانیہ میں ایک طویل فوجی کورس کر رہے تھے۔ پھر اندر کو دوسری پسند کے طور پر قائم مقام ڈی جی ایم او بنایا گیا۔
اپریل سنہ 1971 میں جب گل ڈائریکٹر (ملٹری ٹریننگ) تھے تو انھوں نے چیفس آف سٹاف کمیٹی کے سامنے ایک پیپر پیش کیا، جس میں انھوں نے جنگ میں کامیاب ہونے کے لیے پناہ گزین کے طور پر آنے والے بنگالی نوجوانوں کو منظم کرنے، مشرقی پاکستان میں کام کرنے والے نوجوانوں کو تربیت دینے اور جلاوطنی میں کام کرنے والی عوامی لیگ کی حکومت کے ساتھ تال میل قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اس کے نتیجے میں سیم مانیکشا نے یکم مئی 1971 کو آپریشنل ہدایات نمبر 52 جاری کرتے ہوئے مشرقی کمان کے سربراہ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کو مشرقی پاکستان میں گوریلا جنگ کے لیے مکتی باہنی فوجیوں کو تربیت دینے اور اسلحہ دینے کا حکم دیا۔
جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی فوج مشرقی پاکستان میں داخل ہوئی
ابتدا میں ہدف 30 ستمبر تک دو ہزار گوریلا فورس تیار کرنا تھا۔ بعد میں اسے بڑھا کر 12000 ماہانہ اور پھر 20000 ماہانہ کر دیا گیا۔
اکتوبر نومبر تک مکتی باہنی کے جنگجو اپنی موجودگی کو محسوس کرنے لگے۔ انھوں نے چھوٹے پلوں کو اڑا کر، کئی کشتیاں ڈبو کر، فوجی قافلوں اور پولیس سٹیشنوں پر حملہ کر کے پاکستانی فوج کو دھکیلنا شروع کر دیا۔
مشرقی پاکستان میں پاکستانی کمانڈر جنرل اے اے کے نیازی نے اپنی کتاب 'دی بٹرئیل ان ایسٹ پاکستان' میں لکھا: 'انڈیا کے ساتھ لڑائی دراصل 20-21 نومبر کی رات عید کے دن ہی شروع ہوگئی تھی۔
'اسی دن انڈیا نے اپنی کئی بٹالینوں اور ٹینکوں اور توپ خانے کے ساتھ سرحد پار کی۔ مکتی باہنی کے جنگجو ان کی مدد کر رہے تھے۔ تین دسمبر کو جنگ کا باقاعدہ اعلان ہونے تک پاکستانی فوج کے تقریباً 4000 فوجی مارے جا چکے تھے۔
پاکستانی حملے کی پیشگی اطلاع
انڈیا اور پاکستان کے درمیان لڑائی تین دسمبر کو شروع ہوئی تھی لیکن اندر گل نے اسے کچھ دن پہلے ہی محسوس کرلیا تھا۔
ڈائریکٹر (ملٹری ٹریننگ) کے طور پر اپنی ابتدائی پوسٹنگ کے دوران گل غیر ملکی سفارت خانوں کے ملٹری اتاشیوں سے مسلسل رابطے میں تھے۔ ان میں سے بہت سے ان کے دوست بن گئے۔
بعد میں جب وہ ڈائریکٹر (ملٹری آپریشنز) بنے تو حکومت نے ان پر غیر ملکی نمائندوں سے ملنے پر پابندی لگا دی۔ لیکن ان کی دوستی بدستور جاری رہی۔ 30 نومبر سنہ 1971 کی شام انھیں اپنے گھر پر آسٹریلوی اتاشی کا فون آیا۔
اتاشی نے انھیں بتایا کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے کیونکہ پاکستان میں تمام غیر ملکی سفارت خانوں کے بچوں اور خواتین کو 24 گھنٹوں کے اندر پاکستان چھوڑنے کے لیے کہا گیا ہے۔
انھوں نے گل کو بتایا: 'ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں حملے کی تیاریاں آخری مراحل میں ہیں۔' اندرا نے فوراً سیم مانیکشا کو اس کی اطلاع دی اور مانیکشا یہ خبر اندرا گاندھی تک لے گئے۔
ایس متھیا لکھتے ہیں: 'اندرا گاندھی اور مانیکشا نے فیصلہ کیا کہ پاکستان پر چار دسمبر کو دو بجے حملہ کیا جائے گا۔ لیکن تین دسمبر کو چائے کے وقت پاکستانی طیاروں نے انڈیا کے کئی فضائی اڈوں پر حملہ کر دیا۔
'پاکستان کے حملے سے انڈیا کا کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا لیکن اسے پوری دنیا کو یہ بتانے کا موقع ملا کہ حملہ انڈیا نے نہیں پہلے پاکستان نے کیا۔'
حملے کی اطلاع
تین دسمبر 1971 کی شام پانچ بجے ڈی ایم او آفس کے آپریشن روم میں اندرجیت گل اور ان کے ساتھی تمام سینیئر فوجی افسران کو تازہ ترین صورتحال کے بارے میں بریفنگ دے رہے تھے۔
اس وقت مانیکشا کے فوجی اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے والے دیپندر سنگھ ان کی سوانح 'سیم مانیکشا سولجرنگ ود ڈگنیٹی' میں لکھتے ہیں: 'اچانک ڈیفنس سیکریٹری کے بی لال کمرے میں داخل ہوئے اور اعلان کیا کہ پاکستانی بمبار مغربی سیکٹر میں ہمارے فضائی اڈوں پر حملہ کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
'چونکہ تمام افسران آپریشن روم میں موجود تھے اس لیے ویسٹرن کمانڈ کے سربراہ کسی سینیئر فوجی افسر سے رابطہ نہیں کر سکے۔ تو وہ پریشان ہو گئے اور اس حملے کے بارے میں سیکریٹری دفاع کو آگاہ کیا۔
'جب مانیکشا وہاں سے نکلے تو انھوں نے اندر گل کو حکم دیا کہ آپریشن روم میں بھی ٹیلی فون کا بندوبست کیا جائے۔ کچھ ہی دیر بعد اندر گل اور ان کا عملہ جنگ میں مصروف ہو گیا۔ گل نے اپنی بیوی مونا کو فون کیا اور کہا کہ وہ اس رات گھر نہیں آئیں گے۔'
گل 13 دنوں تک جنگ میں صرف سینڈوچ کھاتے رہے
اس وقت گل کے دفتر میں لیفٹیننٹ کرنل کی حیثیت سے کام کرنے والے سی اے بیریٹو نے بعد میں یاد کرتے ہوئے کہا: 'جب ہم کام پر بیٹھے تو کسی کو کھانے کی پرواہ نہیں رہی۔ دراصل آرمی ہیڈ کوارٹرز کی کینٹین چھ بجے کے بعد بند ہو جاتی تھی۔
'تھوڑی دیر میں ہم دیکھتے ہیں کہ رات کے کھانے کے وقت گرم کافی کے تھرموس کے ساتھ درجنوں سینڈوچ وہاں ہیں۔ اسے گل کی بیوی مونا گل نے بھیجا تھا۔ جنگ کے آغاز کی خبر سنتے ہی انھوں نے ڈبل روٹی، انڈے اور سینڈوچ فلنگ کا آرڈر دیا اور گھر کے سب لوگوں کو سینڈوچ بنانے میں لگا دیا۔
'اس کے بعد جب تک جنگ جاری رہی جنرل اندر گل نے ایک بار بھی اپنے گھر کا رخ نہیں کیا اور اپنی بیوی کے بھیجے ہوئے سینڈوچ پر گزر کرتے رہے۔'
'بد زبان' جنرل اندر گل
جب اندر گل نے ڈائریکٹر (ملٹری آپریشنز) کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے اپنے دفتر میں ایک نیا ورک کلچر تیار کیا۔
وہ روزانہ اپنا بریف کیس لے کر دفتر پہنچتے اور اپنے ساتھی نیگی سے کہتے کہ وہ ان کی مدد کے بغیر اپنا بریف کیس اٹھانے کے اہل ہیں۔
چارج سنبھالنے کے پہلے ہی دن انھوں نے دفتر میں کام کرنے والے تمام لوگوں کو ہاتھ سے لکھا ہوا نوٹ بھیجا کہ انھیں آسان انگریزی میں لکھے ہوئے 'ٹو دی پوائنٹ نوٹ' پسند ہیں۔ اس لیے مشکل انگریزی سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے۔
ان کے دو ٹوک ہونے کی کئی مشہور کہانیاں ہیں۔
ایس متھیا ان کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں: 'ایک شام اندر اپنی میز پر آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے، تھوڑی سی غنودگی تھی کہ اچانک مانیکشا ان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ انھوں نے ان سے ایک بریگیڈ کی نقل و حرکت کے بارے میں پوچھا۔
اندر نے انھیں بتایا کہ تین بجے بریگیڈ دلی سے مغربی سرحد کے لیے روانہ ہوچکی ہے۔ لیکن مانیکشا نے پھر اصرار کیا کہ اس وقت بریگیڈ کہاں ہے؟ اندر نے کہا اپنی ٹرین میں۔ یہ کہہ کر انھوں نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔
'اسی طرح وہ ایک بار سو رہے تھے کہ ٹیلی فون پر وائس چیف آف آرمی سٹاف نے ان سے پوچھا کہ مختلف محاذوں پر کیا صورتحال ہے۔ گل کا جواب تھا کہ میں اپنی بیوی کو خواب میں دیکھ رہا ہوں۔ اگر کچھ دلچسپ ہوگا تو میں آپ کو فوراً مطلع کروں گا۔ یہ کہہ کر اندر گل نے فون بند کر دیا۔'
اندرا گاندھی کی میٹنگ سے واک آؤٹ
ایسا ہی ایک واقعہ سنہ 1971 کی جنگ کے ابتدائی دنوں کا ہے۔ آپریشن روم میں وزیر اعظم اندرا گاندھی، وزیر دفاع جگجیون رام اور کئی سینیئر وزرا موجود تھے۔
اندر گل کو ان کے سامنے پریزنٹیشن دینا پڑی۔ ایس متھیا لکھتے ہیں: 'جب اندر گل بات کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو انھوں نے بتایا کہ ہر کوئی اپنے ساتھ والے شخص سے بات کرنے میں مصروف ہے۔ یہاں تک کہ اندرا گاندھی بھی کسی سے بات کر رہی تھیں۔
’چند منٹوں کے بعد اندر گل سیم مانیکشا کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: 'سیم اب آپ سنبھالیے۔ اس ملک میں جنگ جاری ہے۔ مجھے دیکھنے دیجیے کہ وہاں کیا پیش رفت ہے۔'
یہ کہہ کر اندر گل کمرے سے نکل گئے۔ بعد میں کچھ لوگوں نے اس کہانی پر یقین نہیں کیا لیکن جو لوگ اندر گل کو قریب سے جانتے تھے ان کا کہنا ہے کہ اس میں ایسی 'گستاخی' کرنے کی صلاحیت تھی۔
جنرل جیکب نے اندر گل کی تعریف کی
سنہ 1971 کی پوری جنگ کے دوران فوج کے تینوں ونگز کے درمیان ہم آہنگی اعلیٰ درجے کی تھی۔ اس کے لیے ذمہ دار بے باک، بڑبولے اور زمین سے جڑے جنرل اندرجیت گل تھے۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ ان کے تمام فیلڈ کمانڈروں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے حالانکہ ان میں سے بہت سے لوگ ان سے اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔
جنرل جیکب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: 'اگر گل آرمی ہیڈ کوارٹرز میں نہ ہوتے تو میرے لیے کام کرنا تقریباً ناممکن ہوتا۔ وہ ہیڈ کوارٹرز میں کام کرنے والے تمام افسران سے زیادہ قابل تھے۔‘
'انھوں نے مغربی اور مشرقی دونوں محاذوں کے آپریشن میں اہم کردار ادا کیا۔ ہیڈ کوارٹرز میں رہتے ہوئے وہ ہمیشہ میرا ہاتھ پکڑے رہے۔'
جنرل اندرجیت سنگھ گل کو سنہ 1971 کی جنگ کے دوران ان کی خدمات کے لیے پدم بھوشن اعزاز سے نوازا گیا تو اس وقت وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے واحد میجر جنرل تھے۔
اپریل 1973 میں وہ سیم مانیکشا سے ملنے کے لیے انسپیکشن بنگلے گئے، جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔
ابھی انھوں نے اپنے گلاس میں ڈرنکس انڈھیلی ہی تھی تو ٹیلی فون آیا۔ لوٹ کر انھوں انتہائی غمزدہ دل کے ساتھ سیم سے صرف ایک لفظ کہا- سکم۔
انھوں نے سیم مانیکشا کو الوداع کہا اور فوراً اپنے دفتر چلے گئے۔ وہاں انھوں نے رات بھر کام کیا۔ جنرل اندرجیت سنگھ گل پورے ایک سال تک اس عہدے پر رہے۔ اس کے بعد انھیں مشرق میں فور کور کی کمان سونپ دی گئی۔