طالبان نے دس دن میں افغانستان کے اہم ترین علاقوں پر کیسے قبضہ کیا؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, دی ویژوئل جرنلزم ٹیم
- عہدہ, بی بی سی نیوز
طالبان دس دنوں میں تیزی کے ساتھ پیش قدمی کرتے ہوئے پورے افغانستان پر قابض پر ہو چکے ہیں۔ طالبان جنگجوؤں نے چھ اگست کو افغانستان میں پہلے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کیا تھا اور پھر 15 اگست تک وہ کابل شہر کے دہانے پر آن کھڑے ہوئے تھے۔
ان کی برق رفتار پیش قدمی نے افغانستان کے ہزاروں شہریوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔ کچھ لوگ وفاقی دارالحکومت کابل کی جانب دوڑے اور چند ملک چھوڑ کر ہمسایہ ممالک نکل گئے۔
اور پھر طالبان کے کابل پہنچنے اور افغان صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑ جانے کے بعد وہاں افراتفری کا عالم پیدا ہو گیا۔ ہزاروں شہری وہاں سے فرار ہونا چاہتے تھے۔
طالبان کی برق رفتاری سے پیش قدمی
جون میں امریکی اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے آغاز سے قبل ہی ملک کے بیشتر علاقے طالبان کے زیر قبضہ تھے۔ لیکن چھ اگست کے بعد ان کی پیش قدمی ایک نئی جذبے اور تحریک کے ساتھ تیز ہو گئی تھی۔

بیس برس کی غیر ملکی امداد اور اربوں ڈالرز کی فنڈنگ، ایک جامع تربیت اور امریکی فضائی مدد کے باوجود افغان فوج ان کے سامنے بری طرح ناکام ہوئی۔ تاہم چند علاقوں میں اس نے طالبان سے لڑائی کی اور مزاحمت کی۔
لشگر گاہ میں طالبان کے بار بار حملوں کے باعث افغان فوجی اہم اور کلیدی پوزیشنوں سے پیچھے ہٹ گئے تھے۔
لشگر گاہ میں ہزاروں افغان کمانڈوز کو امن و امان قائم رکھنے اور صورتحال قابو کرنے کے لیے بھیجا گیا لیکن جب طالبان نے 11 اگست کو پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر ایک بڑا کار بم حملہ کیا تھا، اس وقت وہاں جنگ مجموعی طور پر ختم ہو چکی تھی۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
بہت سے علاقوں میں افغان فوجوں کو گولہ بارود سمیت دیگر اشیا کے ختم ہو جانے کے مسائل کا سامنا رہا۔

امریکہ سے تربیت یافتہ مسلح فوجیوں نے عام شہریوں کو بڑی حد تک اپنی حفاظت خود کرنے کے لیے چھوڑ دیا۔
اور چند مقامات پر حکام نے طالبان کو پیش قدمی کرنے کی آمادگی خود ظاہر کی تاکہ مزید خون خرابے سے بچا جا سکے۔
غزنی میں اطلاعات کے مطابق پولیس سربراہ اور گورنر کو بغیر مزاحمت کے قبضہ کرنے کے عوض شہر چھوڑ کر جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
چودہ اگست کو افغان فوج کی معمولی مزاحمت کے بعد مزارِ شریف بھی طالبان کے ہاتھوں میں چلا گیا تھا۔ ان افغان فوجیوں میں سے بعض شہر چھوڑ کر دوڑ گئے تھے جبکہ کچھ ہیراٹئین کے مقام پر ازبکستان کی جانب چلے گئے تھے۔

'انسانی تباہی'
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی امور کے دفتر کے مطابق 15 اگست تک 17600 افراد طالبان کے خوف سے کابل پہنچے تھے، جبکہ ہزاروں مزید پہنچ رہے ہیں۔
افغان حکام کی بہت کم مدد کے ساتھ پیشتر شہریوں نے رات شہر کی سڑکوں اور پارکوں میں سو کر گزاری تھی۔
ان میں سے کچھ کا کہنا تھا کہ وہ طالبان کے زیر قبضہ علاقوں سے نقل مکانی کر کے آئے ہیں جہاں طالبان ان کے خاندان کے مرد حضرات کو قتل کر رہے ہیں جو سکیورٹی فورسز کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اور وہ خواتین پر بھی سخت پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔
عالمی ادارہ خوراک (ورلڈ فوڈ پروگرام) کا کہنا ہے کہ یہ تنازع ’تمام تر انسانی بحرانوں اور تباہی سے بڑا ہے۔‘


کابل میں افراتفری
صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑ جانے اور امریکی سفارتی حملے کے اپنے سخت حفاظتی حصار والے سفارتخانے سے بذریعہ ہیلی کاپٹر اڑ جانے کے بعد ہزاروں افغان شہریوں نے کابل ایئر پورٹ کا رخ کیا۔
طالبان جنگجو ابتدا میں کابل شہر کے باہر آ کر رک گئے تھے اور اس دوران صدارتی محل میں ہنگامی اجلاس ہوا تھا۔ لیکن بعدازاں وہ شہر میں داخل ہوئے اور انھوں نے اس کا انتظام سنبھال لیا۔
غیر یقینی مستقبل

،تصویر کا ذریعہGetty Images
طالبان ملک پر کس طرح حکومت کرنا چاہتے ہیں، یہ ابھی غیر واضح ہے۔
اب تک طالبان کے زیر قبضہ علاقوں سے متضاد خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
بلخ میں جو مزارِ شریف سے بیس کلومیٹر دور واقع ہے بی بی سی کو علم ہوا ہے کہ وہاں خواتین اور لڑکیوں کو عوامی مقامات پر بغیر محرم کے جانے کی اجازت ہے مگر یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وہاں ایک خاتون کو نامناسب لباس پہننے کا الزام لگا کر قتل کر دیا گیا۔
تاجکستان کے ساتھ موجود دیہی شمالی اضلاع سمیت دیگر مقامات پر خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں برقعہ پہننے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور وہ بنا کسی مرد کے باہر نہیں جا سکتی ہیں۔
وہاں طالبان جنگجوؤں کے لیے نوجوان لڑکیوں کے رشتوں کی پیشکش اور جبری شادیوں کی بھی اطلاعات ہیں۔
حالانکہ قطر میں موجود طالبان نمائندوں کا زور ہے کہ 'یہ سب کچھ جھوٹ ہے۔'












