انڈیا میں کورونا کی دوسری لہر: کووڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران انڈیا کو دوبارہ آکسیجن کی قلت کا سامنا ہے؟

،تصویر کا ذریعہReuters
جمعے کی صبح انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں 25 خاندانوں کو یہ خبر ملی تھی کہ ان کے پیارے شہر کے سر گنگا رام ہسپتال میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے فوت ہو گئے ہیں تو جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب دہلی کے ہی جے پور گولڈن ہسپتال میں داخل کورونا کے مزید 20 مریضوں کے لواحقین کو بھی یہی خبر سننے کو ملی۔
آکسیجن کی کمی کا معاملہ صرف ان دو ہسپتالوں تک محدود نہیں بلکہ دہلی اور دیگر بڑے شہروں کے متعدد بڑے ہسپتالوں میں بار بار آکسیجن ختم ہو رہی ہے جو وائرس کے شکار مریضوں کو سانس لینے میں مدد کے لیے ضروری ہے۔
جہاں ایک طرف ہسپتالوں میں داخل مریض آکیسجن کی عدم دستیابی کی وجہ سے جان کی بازی ہار رہے ہیں وہیں انڈیا میں روز بروز نئے متاثرین کی تعداد کا نیا عالمی ریکارڈ قائم ہوتا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
جمعہ وہ تیسرا دن تھا جب لگاتار ملک میں کورونا کے نئے متاثرین کی تعداد تین لاکھ سے زیادہ رہی اور جمعے کو انڈیا میں 346,786 افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی جبکہ مزید 2624 افراد کی سانس کی ڈور ٹوٹ گئی۔
انڈیا میں کورونا وبا کی دوسری لہر کے دوران وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کے باعث نظام صحت تباہی کے دہانے پر پہنچ رہا ہے اور یہ حالات ملک کے بڑے شہروں سے لے کر دور دراز علاقوں تک ایک جیسے ہیں۔
انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ وہ شدید متاثرہ علاقوں میں آکسیجن کی فراہمی کے لیے ٹرینوں اور فضائیہ کی مدد لے رہی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے کہا ہے کہ انڈیا کے حالات اس چیز کی ’تباہ کن یاددہانی‘ ہیں کہ کووڈ کیا تباہی لا سکتا ہے۔
’مزید مریض مر جائیں گے‘
انڈین دارالحکومت نئی دہلی کے ہسپتالوں کے حکام نے خبردار کیا ہے کہ حالات قابو سے باہر ہونے کی نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ ہولی فیملی ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے تمام یونٹ بھر چکے ہیں اور مزید کسی مریض کی گنجائش نہیں۔
ڈاکٹر سمت رائے نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ہولی فیملی ہسپتال کی بات نہیں بلکہ ہر ہسپتال میں صورتحال نازک ہے۔ اگر آکسیجن ختم ہو گئی تو کئی مریضوں کے زندہ رہنے کے امکانات ختم ہو جائیں گے۔
’وہ مر جائیں گے۔ چند منٹ میں وہ مر جائیں گے۔ مریض وینٹیلیٹرز پر ہیں۔ انھیں مسلسل اور زیادہ آکیسجن درکار ہے۔ آکسیجن رکی تو ان میں سے زیادہ تر مر جائیں گے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
سانسوں کی جنگ
بی بی سی مراٹھی کی جھانوی مولے کے مطابق دارالحکومت نئی دہلی کے علاوہ مغرب میں مہاراشٹر اور گجرات، شمال میں ہریانہ، اور وسطی ہندوستان میں مدھیہ پردیش سب کو آکسیجن کی قلت کا سامنا ہے۔
شمالی ریاست اتر پردیش میں، کچھ ہسپتالوں نے باہر ’آکسیجن سٹاک ختم‘ کے بورڈ لگائے ہیں اور ریاست کے دارالحکومت لکھنؤ میں ہسپتالوں نے مریضوں کو کہیں اور منتقل ہونے کو کہا ہے۔
دہلی میں چھوٹے چھوٹے ہسپتال اور نرسنگ ہوم بھی یہی کام کر رہے ہیں۔ متعدد شہروں میں مایوس رشتے دار آکسیجن ریفلنگ مراکز کے باہر کھڑے ہیں۔ جنوبی شہر حیدرآباد میں ایک پلانٹ نے بھیڑ کو سنبھالنے کے لیے سکیورٹی گارڈز اور باؤنسرز کی خدمات حاصل کیں۔
کورونا وائرس میں مبتلا بہت سے افراد رکتی سانسوں کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہسپتال دم توڑتے مریضوں کو رکھنے کے معاملے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کو زندہ رکھنے کی جدو جہد کر رہے ہیں جو بستر حاصل کرنے کے معاملے میں خوش قسمت رہے۔
سوشل میڈیا فیڈز اور واٹس ایپ گروپس آکسیجن سلنڈروں کے لیے مدد مانگتی درخواستوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایک ہفتے سے، انڈیا اس خوفناک خواب کو دہرا رہا ہے، خوفناک لمحے کا انتظار کر رہا ہے جب آکسیجن نہیں بچے گی۔
ڈاکٹروں سے لے کر حکام اور صحافیوں تک جس نے بھی وبائی صورتحال کو بدلتے دیکھا ہے انھیں ایسا لگ رہا ہے کہ یہ سب پہلے بھی ہوا ہے۔ سات ماہ قبل، ملک میں آکسیجن کی اسی طرح کی قلت کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ کووڈ کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔ لیکن اس بار، یہ صورتحال بد ترین ہے۔
صحت کے ایک اعلیٰ حکام راجیش بھوشن نے بتایا کہ عام طور پر، صحت کے مراکز آکسیجن سپلائی کا تقریباً 15 فیصد استعمال کرتے ہیں، بقیہ صنعتی استعمال کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن انڈیا میں کووڈ 19 کی دوسری لہر کے دوران، ملک میں آکسیجن سپلائی کا تقریباً 90 فیصد روزانہ 7،500 میٹرک ٹن، طبی استعمال میں لایا جا رہا ہے۔
یہ پچھلے سال ستمبر کے وسط میں وبا کی پہلی لہر کے عروج پر ہر دن استعمال ہونے والی آکسیجن سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔
اس وقت انڈیا میں روزانہ تقریباً 90،000 کیسز رپورٹ کیے جاتے تھے۔ صرف دو ہفتے قبل اپریل کے شروع میں ایک دن میں زیادہ سے زیادہ تعداد تقریباً 144000 کے لگ بھگ تھی۔ اب یہی تعداد دگنی ہو کر یومیہ 300،000 سے زیادہ ہو چکی ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ڈاکٹر شندے، پونے میں ایک کووڈ ہسپتال چلاتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ ’صورتحال اتنی خراب ہے کہ ہمیں کچھ مریضوں کو 12 گھنٹے تک کارڈیک ایمبولینس میں علاج کرنا پڑا جب تک کہ انھیں آئی سی یو میں بستر نہیں ملا۔‘
پچھلے ہفتے، جب ان کے ہسپتال میں کوئی وینٹیلیٹر خالی نہیں بچا تھا، انھوں نے مریضوں کو دوسرے شہروں میں منتقل کرنا شروع کیا، جہاں عام طور پر مریض قریبی اضلاع سے علاج کے لیے جاتے ہیں۔
ریاست مہاراشٹرا، جہاں پونے شہر واقع ہے، انڈیا کے سب سے زیادہ متاثرہ حصوں میں شامل ہے اور اس وقت اس میں ایک تہائی سے زیادہ مثبت کیسز ہیں۔ ریاست روزانہ تقریباً 1200 میٹرک ٹن آکسیجن تیار کر رہی ہے لیکن یہ ساری کووڈ مریضوں کے لیے پہلے ہی استعمال کی جا رہی ہے۔
ریاست میں کورونا کے مثبت کیسز کے ساتھ ساتھ آکسیجن کی طلب میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور یہ صورتحال بدلنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔
ڈاکٹر شندے کا کہنا ہے کہ ’عام طور پر ہمارے جیسے ہسپتالوں میں آکسیجن کی کافی فراہمی ہوتی تھی۔ لیکن پچھلے 15 دنوں میں لوگوں کے سانس بحال رکھنا ایک مشکل کام بن گیا ہے۔ 22 سال کی عمر تک نوجوان مریضوں کو بھی آکسیجن کی مدد کی ضرورت ہے۔‘
ڈاکٹروں اور وبائی امراض کے ماہرین کا خیال ہے کہ کووڈ کیسز کے تیزی سے پھیلاؤ کے باعث ٹیسٹوں اور معائنے کا عمل تاخیر کا شکار ہے اس وجہ سے بہت زیادہ لوگوں کی حالت تشویشناک ہونے پر ہسپتال داخل کرایا جا رہا ہے۔
لہذا کورونا کے کیسز میں تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث آکسیجن کی طلب گذشتہ لہر کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔
ڈاکٹر شندے کا کہنا ہے ’کسی کو نہیں معلوم کہ یہ کب ختم ہو گا۔ میرے خیال میں حتیٰ کہ حکومت بھی اس کا اندازہ نہیں لگا سکی۔‘
سپلائی کی تلاش، افراتفری
کچھ حکومتوں نے ایسا کیا۔ جنوبی ریاست کیرالہ نے طلب کی نگرانی اور کووڈ کیسز میں اضافے کی منصوبہ بندی کر کے سپلائی بڑھا دی۔ کیرالہ میں اب اضافی آکسیجن ہے جو وہ دوسری ریاستوں کو بھیج رہی ہے۔ لیکن دہلی اور کچھ دوسری ریاستوں میں اپنے آکسیجن پلانٹ نہیں ہیں اور وہ درآمدات پر بھروسہ کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے وزیر اعظم نریندر مودی کی انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ آکسیجن کے بحران کو حل کرنے کے لیے قومی کووڈ منصوبہ بنائے۔ وفاقی وزارت صحت نے پچھلے سال اکتوبر میں نئے آکسیجن پلانٹوں کے لیے بولیاں طلب کی تھیں جب انڈیا میں وبائی مرض کے آغاز کو بھی آٹھ مہینیے گزر چکے تھے۔
وزارت نے کہا ہے کہ منظور شدہ 162 میں سے اب تک صرف 33 پلانٹ لگ سکے ہیں، مزید 59 پلانٹ اپریل کے آخر تک اور 80 مئی کے آخر تک انسٹال کیے جائیں گے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اس افراتفری میں یہ سپلائی پوائنٹس اس لیے بڑھائے جا رہے ہیں کہ اب تک کوئی ایمرجنسی منصوبہ تھا ہی نہیں۔ مائع آکسیجن، ہلکے نیلے رنگ کی انتہائی سرد ایک کرائیوجینک گیس ہے، جس کا درجہ حرارت منفی 183 سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ اسے خصوصی سلنڈروں اور ٹینکروں میں محفوظ اور منتقل کیا جا سکتا ہے۔
انڈیا میں لگ بھگ 500 فیکٹریاں ہوا سے آکسیجن کشید کر کے اسے صاف کرتی ہیں اور اسے مائع کی شکل میں ہسپتال بھیجتی ہیں۔ اس کی زیادہ تر فراہمی ٹینکروں کے ذریعہ کی جاتی ہے۔
بڑے ہسپتالوں میں عام طور پر ان کا اپنا ٹینک ہوتا ہے جہاں آکسیجن محفوظ ہوتی ہے اور پھر سیدھے بستر پر پائپ سے فراہم کر دی جاتی ہے۔ چھوٹے اور عارضی ہسپتال سٹیل اور ایلومینیم سلنڈروں پر انحصار کرتے ہیں۔
آکسیجن ٹینکر اکثر پلانٹ کے باہر گھنٹوں گھنٹوں قطار میں لگتے ہیں اور ایک ٹینکر کو بھرنے میں تقریبا دو گھنٹے لگتے ہیں۔ ان ٹینکروں کو ریاستوں کے اندر یا اس کے مختلف شہروں میں جانے میں کئی گھنٹے مزید لگتے ہیں۔
ٹینکروں کو بھی ایک مخصوص رفتار 25 میل فی گھنٹہ یا 40 کلومیٹر فی گھنٹہ کی حد پر عمل کرنا پڑتا ہے اور وہ اکثر رات کو سفر نہیں کرتے تاکہ حادثات سے بچ سکیں۔
انڈیا کے سب سے بڑے آکسیجن فراہم کنندگان کے سربراہ نے کہا ہے کہ اس جدوجہد کے دوران مشرقی انڈیا سے آکسیجن حاصل کرنا ہے جہاں اڑیسہ اور جھارکھنڈ جیسی صنعتی ریاستوں میں آکسیجن کی طلب مہاراشٹر یا دہلی جیسی مغربی یا شمالی انڈین ریاستوں سے زیادہ ہے جہاں کیسز بھی بڑھ رہے ہیں۔
اور انفرادی طبی سہولیات پر آکسیجن کی مانگ غیر متوقع ہے، جس سے ہسپتال کی ضرورت کا اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے اور جہاں ضرورت پڑتی ہے وہاں مناسب فراہمی مل جاتی ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ہر مریض کو یکساں مدت کے لیے یکساں مقدار میں آکسیجن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ممبئی کے ایک ہسپتال میں متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر اوم شریواستو نے بتایا کہ کتنے مریضوں کو ایک ہسپتال میں ایک گھنٹے میں آکسیجن میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔
’ہم اپنی تمام تر دیکھ بھال کر رہے ہیں جو ہم کر سکتے ہیں۔ لیکن میں نے ایسے حالات پہلے نہیں دیکھے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہاں کسی نے بھی نہیں دیکھے۔‘
بہت کم کِیا بہت دیر سے کِیا
آکسیجن کی قلت کے بحران سے پہلے، وفاقی حکومت کو انتخابی جلسوں اور بڑے پیمانے پر ہندو تہوار کی اجازت دینے، اور ویکسینیشن مہم کو تیزی سے وسعت دینے میں ناکام ہونے پر پہلے ہی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ناقدین نے متعدد ریاستی حکومتوں پر الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے تباہ کن دوسری لہر کی تیاری کے لیے بہت کم تیاری کی۔
بی بی سی سے بات کرنے والے ڈاکٹروں اور وائرالوجسٹس نے بتایا کہ آکسیجن کی کمی بحران کی وجہ نہیں بلکہ اس کی محض ایک علامت ہے۔ حفاظتی پروٹوکول اور مضبوط عوامی پیغام رسانی سے زیادہ لوگوں کو گھر میں رکھا جا سکتا ہے، یہ وائرس بے قابو ہے۔
انھوں نے کہا کہ جنوری تک معاملات میں تیزی سے کمی نے ملک کو غلط احساس تحفظ دیا جس نے دوسری خوفناک لہر کی صورتحال پیدا کر دی۔
وزیر اعظم مودی کی حکومت نے اب ایک ’آکسیجن ایکسپریس‘ شروع کر دی ہے، جہاں ٹرینوں سے طلب کے مطابق ٹینکرز بھیجے جا رہے ہیں۔ انڈین فضائیہ فوجی اڈوں سے آکسیجن لے رہی ہے۔ وہ 50،000 میٹرک ٹن مائع آکسیجن درآمد کرنے کے منصوبے پر بھی غور کر رہے ہیں۔
مہاراشٹر میں آکسیجن کا ایک چھوٹا پلانٹ چلانے والے راجا بھاؤ شندے نے کہا، ’ہم حکام کو کہتے رہے ہیں کہ ہم اپنی صلاحیت بڑھانے پر راضی ہیں، لیکن ہمیں اس کے لیے مالی امداد کی ضرورت ہے۔‘
ان کا کہنا تھا،’کسی نے کچھ نہیں کہا اور اب اچانک، ہسپتال اور ڈاکٹر مزید سلنڈر لگانے کی درخواست کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جیسے کہاوت ہے، پیاس سے پہلے کنواں کھودو۔ لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔‘












