آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
روپی کور: ’بے باک اور فحش‘ شاعری کے الزامات کی زد میں شاعرہ کون ہیں؟
- مصنف, سارہ عتیق
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
اگر آپ رات گئے سوشل میڈیا استعمال کرنے کے عادی ہیں تو آپ نے اکثر صارفین کو غم زدہ شاعری اور گانے شئیر کرتے دیکھا ہوگا جسے سوشل میڈیا کی زبان میں 'غم آور' یعنی ’غم کا گھنٹہ‘ بھی کہا جاتا ہے اور ان اوقات میں جو ایک نام اکثر آپ کو اپنی ٹائم لائن پر دیکھنے کو ملتا ہے وہ ہے روپی کور۔
روپی کور کی ’سادہ، عام فہم شاعری‘ جہاں نئی نسل کے سوشل میڈیا صارفین میں مقبول ہے وہیں بہت سے لوگوں کی جانب سے اس پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے، اس پر ہم بعد میں آئیں گے لیکن پہلے ذکر روپی کور کی اس ویڈیو کا جو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے ساتھ ساتھ صارفین کی جانب سے تنقید کی زد میں ہے۔
انڈین نژاد کینیڈین شاعرہ روپی کور نے اپنی پہلی کتاب ' Honey and Milk' یا 'شہد اور دودھ' سے چند اشعار پڑھتے ہوئے ویڈیو بنائی جو انھوں نے اپنے ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر شیئر کی۔ جھومتے لہکتے اپنے ہاتھوں اور انگلیوں کو لہراتے ہوئے روپی کور نے جو اشعار پڑھے ان کا ترجمہ کچھ یوں ہے 'تمہیں پتہ تھا تم (میرے لیے) غلط تھے، جب میرے اندر ڈوبی تمہاری انگلیاں اس شہد کو تلاش کر رہی تھیں جو تمہارے لیے نکل نہ سکا۔'
یہ بھی پڑھیے
روپی کور کی اس ویڈیو میں ان کے انداز اور شاعری دونوں ہی کو نہایت ’بے باک‘ قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے ایک صارف نے لکھا کہ روپی کو اس ویڈیو کی وجہ سے ’جیل بھیج دینا چاہیے‘۔
جبکہ ایک صارف کا کہنا تھا کہ ’پہلے مجھے لگا یہ شاعر کا مذاق اڑا رہی ہے لیکن پھر مجھے پتہ چلا کہ یہ تو خود شاعر ہے جس نے اس کو مزید برا بنا دیا‘۔
ایک صارف نے اس ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ روپی کور نے اپنی نظم ٹھیک اسی انداز میں پڑھی ہے جس طرح لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ تاہم کچھ صارفین نے اس تنقید کو بے جا بھی قراد دیا۔
ماہم ناصر کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک غیر مقبول رائے ہے لیکن لوگوں کو روپی کور کے کام کا مذاق اڑانا بند کر دینا چاہیے۔ یہ بداخلاقی اور غلط ہے۔ میں نے بھی ہر کسی کی طرح ماضی میں ایسا کیا لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ رائے کو بدلا جائے۔ یہ تمام بد اخلاقی اور دادا گیری آخر کس لیے؟‘
ماہم سے اتفاق کرتے ہوئے صباحت ذکریا کا کہنا ہے 'میں ہمیشہ سے کہتی آئی ہوں کہ لوگوں کو دوسرے لوگوں کو اس چیز سے شہرت حاصل کرتے دیکھتے نفرت ہوتی ہے جو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ یہ خود بھی کر سکتے ہیں لیکن بات یہ ہے کہ آپ نے یہ نہیں کیا۔'
روپی کور کون ہیں؟
روپی کور 28 سالہ انڈین نژاد شاعرہ ہیں جن کی شاعری کو سوشل میڈیا سے شہرت ملی۔ ان کی انگریزی شاعری کی منفرد بات یہ ہے وہ نہایت سادہ اور مختصر الفاظ میں شعر کہتی ہیں اور اس کے ساتھ خود تصاویر بھی بناتی ہیں۔
روپی کی شاعری جنسی تعلق، خواتین کے جذبات اور جنسی خواہشات، نسلی اور جنسی تفریق جیسے موضوعات کے گرد گھومتی ہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگ ان کی شاعری کو ’فحش اور بے باک‘ قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ جبکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی شاعری اتنی ’بے ربط اور بے معنی‘ ہوتی ہے کہ اسے شاعری ہی نہیں کہا جا سکتا۔
لیکن اس تمام تنقید کے باوجود روپی کی شاعری کی تین کتابوں کی اشاعت ہو چکی ہے۔ جبکہ سنہ 2014 میں شائع ہونے والی ان کی پہلی کتاب 'شہد اور دودھ' کی دنیا بھر میں 30 لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ یہ کتاب ایک سال تک نیویارک ٹائمز کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں کی فہرست میں بھی رہی۔
روپی کور کی نوجوانوں میں مقبولیت اور متنازع تصور کیے جانے والے موضوعات پر لکھنے کی وجہ سے انھیں سنہ 2017 میں بی بی سی کی سو بااثر خواتین کی فہرست '100 ویمن' میں شامل کیا گیا تھا۔
روپی کی شاعری کے علاوہ ان کی شخصیت بھی متعدد بار تنازعات کی زد میں آ چکی ہے۔ روپی کور نے ماہواری کے دوران خواتین کو پیش آنے والی مشکلات کو اجاگر کرنے کے لیے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اپنی تصویر اپ لوڈ کی جس میں ان کے لباس اور بستر پر خون کے دھبے واضح تھے۔ انسٹاگرام نے اس تصویر کو اپنی پالیسی کے خلاف قرار دیتے ہوئے ہٹا دیا لیکن جب عوام کی جانب سے اس اقدام پر تنقید کی گئی تو انسٹاگرام نے معافی مانگتے ہوئے اس تصویر کو دوبارہ شائع کر دیا۔
حال ہی میں روپی کور کو انڈیا میں جاری کسانوں کے احتجاج کی حمایت اور انڈین وزیراعظم نریندر مودی پر تنقید کرنے کے وجہ سے بی جے پی کے حامیوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
تاہم روپی کور کے مداح سمجھتے ہیں کہ آپ کو روپی کور کی شاعری پسند ہو یا نہ ہو، آپ ان کے خیالات سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن آپ کو ان کے اعتماد کی داد دینی پڑے گی۔