لو جہاد: انڈیا کا قانون جو مختلف مذاہب کے افراد کے درمیان شادیوں کی راہ میں رکاوٹ ہے

لوو جہاد، انڈیا، ہندو مسلم

،تصویر کا ذریعہEPA

    • مصنف, سوتک بسواس
    • عہدہ, بی بی سی نامہ نگار، انڈیا

ہر سال دلی میں قائم ایک ادارے سے لگ بھگ ایک ہزار ایسے جوڑے رابطہ کرتے ہیں جن میں لڑکا لڑکی کے مذاہب مختلف ہوتے ہیں اور انھیں فوری مدد درکار ہوتی ہے۔

یہ ہندو اور مسلم جوڑے ’دھنک‘ نامی اس ادارے سے اس وقت رابطے میں آتے ہیں جب ان کے خاندان ان کی شادی سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ لڑکی اور لڑکے کے مذاہب مختلف ہوتے ہیں۔ مدد حاصل کرنے والے ایسے جوڑوں کی عمریں 20 سے 30 سال کے درمیان ہوتی ہیں۔

یہ ڈرے ہوئے لڑکے اور لڑکیاں چاہتے ہیں کہ ’دھنک‘ سے وابستہ افراد اُن کے خاندان والوں سے بات کریں اور انھیں شادی پر راضی کریں یا بصورت دیگر انھیں قانونی مدد فراہم کریں۔

دھنک کے پاس آنے والے جوڑوں میں سے 52 فیصد میں ہندو لڑکیاں مسلمان لڑکوں سے شادی کرنا چاہتی ہیں جبکہ 42 فیصد مسلم لڑکیاں کسی ہندو لڑکے سے شادی کی خواہش ظاہر کرتی ہیں۔

دھنک کے بانی آصف اقبال کہتے ہیں کہ ’انڈیا میں اکثر مسلمان اور ہندو خاندان دونوں آپس میں شادیوں کے سخت مخالف ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’وہ انھیں روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ والدین اپنی بیٹی کے عاشق کے خاندان کو بھگانے کے لیے اس کی بےعزتی کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ ایسے تعلقات کو روکنے کے لیے 'لو جہاد' ایک ہتھیار ہے۔‘

’لو جہاد‘ کی اصطلاح ہندو گروہوں نے تشکیل دی ہے جو مسلمان مردوں پر شادی کی ترغیب دے کر ہندو لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کروانے کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ نظریات انڈیا میں ہندو مسلم شادیوں کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔

گذشتہ ہفتے شمالی اتر پردیش میں پولیس نے ایک مسلمان مرد کو ایک ہندو خاتون کو مبینہ طور پر جبری اسلام قبول کرانے کے الزام میں گرفتار کیا۔ وہ پہلے ایسے شخص تھے جنھیں ’لو جہاد‘ کے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا۔

کم از کم چار ریاستیں، جہاں انڈیا کی قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے، میں ملتے جلتے قوانین بنائے جا رہے ہیں۔ جماعت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایسے قوانین سے ’جعلسازی، دھوکہ اور غلط بیانی‘ کو روکنے میں مدد ملے گی۔

یونیورسٹی آف دلی کے تاریخ دان چارو گپتا نے ’لو جہاد کے غلط نظریے‘ پر تحقیق کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب ایک ہندو لڑکا ایک مسلم لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اسے ہندو تنظیموں کی جانب سے رومانوی تعلق کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ جب بات اس سے الٹ ہو تو اسے جبر کا نام دیا جاتا ہے۔‘

لوو جہاد

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنانڈیا میں ایک ہندو خاتون نے احمد آباد میں مظاہرے کے دوران 'لوو جہاد' کے خلاف بینر پکڑا ہوا ہے

انڈیا کے ایسے علاقے جہاں پدر شاہی نظام، خونی رشتوں، مذہب، ذات اور خاندانی نام کی اہمیت ہے وہاں پیار محبت مشکل ہی نہیں بلکہ خطرناک بن جاتے ہیں۔

اس کے باوجود قصبوں اور چھوٹے شہروں میں نوجوان مرد اور خواتین صدیوں سے قائم سماجی رکاوٹ کو عبور کرنے کی جرات کر رہے ہیں۔ موبائل فون، سستے انٹرنیٹ پیکیج اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے لوگ دوسروں سے مل رہے ہیں، ان کی محبت میں مبتلا ہو رہے ہیں اور ان لوگوں کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔

وہ ان قوانین کو توڑ رہے ہیں جنھیں انڈین مصنفہ اروندھتی رائے اپنی کتاب ’دی گاڈ آف سمال تھنگز‘ میں محبت کے قوانین کہتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ قانون طے کرتے ہیں کہ آپ ’کس سے محبت کر سکتے ہیں، محبت کیسے اور کتنی کر سکتے ہیں۔‘

اس معاشرے میں اکثر لوگ ایسی شادیوں کو مثالی سمجھتے ہیں جو مستحکم، بڑوں کی مرضی، مخالف جنس کے بیچ اور اپنے جیسے لوگوں میں ہوئی ہوں۔

انڈیا میں قریب 90 فیصد شادیاں ارینج ہوتی ہیں یعنی خاندان طے کرتا ہے کہ ان کا لڑکا یا لڑکی کس سے شادی کریں گے۔ ہندو مسلم شادیاں یا الگ مذاہب کے لوگوں میں شادیاں بہت نایاب ہیں۔ ایک تحقیق میں انھیں دو فیصد کہا گیا۔ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ بعض ہندو گروہ سیاسی مفادات کے لیے ’لو جہاد‘ کی بحث کو وقتاً فوقتاً چھیڑتے رہتے ہیں۔

انڈیا میں الگ مذاہب کے لوگوں میں دوستی کی مخالفت کرنے والے گروہوں کی ایک لمبی تاریخ ہے۔

سنہ 1920 اور 1930 کی دہائیوں میں جب الگ مذاہب کے لوگوں میں تناؤ بڑھ رہا تھا اس وقت کچھ ہندو قوم پرست گروہوں نے شمالی انڈیا کے کچھ علاقوں میں مسلمان مردوں کی جانب سے ہندو خواتین کو ’اغوا‘ کرنے کے خلاف ایک مہم چلائی تھی۔ انھوں نے ایسے میں اپنی ’ہندو بیویوں کی بازیابی‘ کا مطالبہ کیا تھا۔

لوو جہاد، انڈیا، ہندو مسلم

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنہادیہ جہان کی پیدائش ایک ہندو خاندان میں ہوئی لیکن بعد میں انھوں نے ایک مسلم مرد سے شادی کر کے اسلام قبول کر لیا۔ 2018 میں عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا

متحدہ صوبے (جسے آج کی تاریخ میں اتر پردیش کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے) میں ایک ہندو گروہ کی بنیاد رکھی گئی تھی جس کا مقصد مسلمانوں کی جانب سے مبینہ طور پر ’ہندو خواتین کے اغوا‘ کو روکنا تھا۔

سنہ 1924 کے دوران کانپور میں ایک مسلم سرکاری ملازم پر ایک ہندو لڑکی کو ’اغوا کرنے، بہکانے اور زبردستی اسلام قبول کروانے‘ کے الزامات لگائے گئے تھے۔ اس ہندو گروہ نے اس سرکاری ملازم کے گھر سے لڑکی کی ’بازیابی‘ کا مطالبہ کیا تھا۔

انڈیا میں برطانوی راج کے دنوں میں بھی ہندو خواتین کے اغوا کے معاملے پر بحت ہوتی رہی ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس، جو آج انڈیا کی مرکزی اپوزیشن جماعت ہے، نے اس سلسلے میں ایک قرار دار منظور کی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ’ایسی خواتین جنھیں اغوا کیا گیا اور زبردستی شادی کروائی گئی ان کی اپنے گھر واپسی ہونی چاہیے۔ بڑے پیمانے پر مذہب کی تبدیلی کی کوئی اہمیت یا حیثیت نہیں۔ اور لوگوں کو اپنی پسند کی زندگی میں واپسی کے تمام مواقع ملنے چاہیے۔‘

اگست 1947 میں تقسیم ہند کے وقت دو ریاستیں قائم ہوئیں، 10 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے اور ایک کروڑ 50 لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے۔ جبکہ لاکھوں مسلمانوں نے پاکستان میں پناہ لے لی۔ ہندو اور سکھ دوسری جانب انڈیا چلے گئے۔ ایسے میں خواتین کو سب سے زیادہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس طرح ایک مزید تنازع کھڑا ہو گیا۔

حالیہ عرصے میں انتخابات سے قبل اکثر ہندو گروہ لو جہاد کی بحث چھیڑ دیتے ہیں تاکہ ووٹرز کو منقسم کیا جائے۔ سنہ 2014 کے دوران ایسا اتر پردیش کے مقامی انتخابات میں دیکھا گیا۔

پروفیسر گپتا کہتے ہیں کہ ہندو گروہوں نے ایک پراپیگنڈا مہم شروع کی جس میں پوسٹر اور افواہوں کے ذریعے ایسی ’ہندو خواتین کی بازیابی‘ کے لیے مہم چلائی جو فرضی تھیں۔

وہ کہتے ہیں کہ مسلمان مردوں پر ریپ، جبری شادی اور اسلام قبول کروانے کے الزامات لگائے گئے۔

لوو جہاد، انڈیا، ہندو مسلم

،تصویر کا ذریعہMANSI THAPLIYAL

،تصویر کا کیپشنبھاگ کر شادی کرنے والے جوڑے اپنی حفاظت کے لیے پولیس سے مدد مانگتے ہیں

ہندو قوم پرست جماعت آر ایس ایس کے ترجمانوں نے بھی لو جہاد کو مسئلہ قرار دیتے ہوئے ’محبت ہمیشہ کے لیے، لو جہاد کبھی نہیں!‘ کا نعرہ بلند کیا۔

ایسے میں بیانیہ صرف مسلمان مردوں کے بارے میں روایتی تصورات کی بنا پر نہیں بنا بلکہ یہ افواہ پھیلائی گئی کہ ہندو خواتین کو بہکانے کی یہ ’انتہا پسند اسلام کی عالمی سازش‘ ہے۔ یہ الزام لگا کہ مسلمان مرد بیرون ملک سے پیسے وصول کرتے ہیں تاکہ مہنگے کپڑے، گاڑیاں اور تحفے خرید سکیں جس سے وہ ہندو بن کر ہندو خواتین کو اپنے جال میں پھنسا سکتے ہیں۔

اتر پردیش میں بی جے پی کے ایک ترجمان کے مطابق ’یہ عالمی لو جہاد کا حصہ ہے جس کا ہدف معصوم ہندو لڑکیاں ہیں۔‘

پروفیسر گپتا کہتے ہیں کہ ’یہ صرف خواتین کے نام پر سیاسی و مذہبی تحریک کی کوشش تھی۔‘

ماہرین کہتے ہیں کہ ماضی کی اور آج کی ’لو جہاد‘ مخالف مہم ملتی جلتی ہیں۔ لیکن اس بار بی جے پی کی حکومت میں موجودہ مہم نے بہت زور پکڑا ہے۔

پروفیسر گپتا کے مطابق ’آزادی سے قبل ایسی کوئی تحریک اخبار کے اندر کے صفحے میں چھپ کر رہ جاتی تھی۔ پہلے ایسی مرکزی جماعتیں یا بڑے رہنما نہیں تھے جو مختلف عقائد کے لوگوں میں تناؤ پیدا کرتے ہوں۔ لیکن اب یہ اخبار کے پہلے صفحے کا موضوع ہے اور اس میں ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے ریاست خود سختی سے ملوث ہے۔‘

’سوشل میڈیا اور پیغامات تک رسائی کی دیگر سروسز کو استعمال کر کے یہ پیغام پھیلایا جا رہا ہے کہ مسلمان مرد جبری طور پر ہندو لڑکیوں کو اسلام قبول کروا رہے ہیں۔‘

کئی لوگ کہتے ہیں کہ اس بارے میں بات چیت ہوتی ہے جب جوڑے شادی کے مذہبی طریقے کو اپناتے ہیں کیونکہ وہ انڈیا کے ایک خاص میرج ایکٹ سے بچنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ اس میں الگ مذاہب کے جوڑوں کو حکام تک ایک ماہ میں اپنی ذاتی معلومات دینی ہوتی ہے۔ اس لیے جوڑوں کو ڈر رہتا ہے کہ خاندان مداخلت کر کے شادی رکوا دیں گے۔

کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ ان قونین کی وجہ سے اب لوگ اپنی پسند سے الگ مذہب کے فرد سے شادی کے خیال پر بھی ڈر جائیں گے۔ انھیں لگتا ہے کہ ان قوانین کو استعمال کر کے حکام اور والدین نوجوانوں کو متنبہ کر رہے ہیں۔

دوسری طرف گزرتے وقت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مرد اور خواتین ذات اور مذہب کی دیواروں کو گِرا کر محبت کر رہے ہیں اور اپنے خاندانوں سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔ کئی لوگ ریاست کی جانب سے قائم پناہ گاہوں میں قیام کر رہے ہیں جبکہ ریاست ہی بظاہر ایسے ملاپ کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اقبال کہتے ہیں کہ ’انڈیا میں محبت پیچیدہ اور مشکل ہے۔‘