شہرہ کوفی: ’قاتلوں نے دو مرتبہ میری آنکھوں کے سامنے میری والدہ کو مارنے کی کوشش کی‘

Shuhra talking to her injured mum Fawzia Koofi'

،تصویر کا ذریعہShuhra Koofi

،تصویر کا کیپشنشہرہ ہسپتال میں قیام کے دوران اپنی والدہ کا خیال رکھ رہی ہیں
    • مصنف, سوامی ناتھ نترنجن
    • عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس

’خدا کے لیے اپنی آنکھیں بند نہ کریں، میرے پاس آپ کے علاوہ کوئی نہیں ہے، میں آپ کے بغیر کیا کروں گی۔‘

شہرہ کوفی بہت بے تاب تھیں۔ اُن کی والدہ، جو دو مرتبہ افغان پارلیمان کی رکن رہ چکی ہیں، کی کار پر کابل سے واپسی پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔

شہرہ کوفی کا کہنا ہے کہ ’میں بہت خوفزدہ تھی کیونکہ میں نے سوچا تھا کہ میں نے اپنی والدہ کو کھو دیا ہے لیکن پھر میں نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی کیونکہ انھیں میری مدد کی ضرورت تھی۔‘

دو قاتلانہ حملے

فوزیہ کوفی بہت عرصے سے افغان قدامت پسندوں کی ناقد رہی ہیں اور انھوں نے مذاکرات کی میز پر بڑے کھلے الفاظ میں طالبان کو چیلنج بھی کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انھوں نے اپنی سیاست کی بہت بھاری قیمت چکائی ہے۔ سنہ 2010 میں ان کے قافلے پر طالبان نے حملہ کیا تھا اور رواں برس اگست میں نامعلوم افراد نے ان پر راہ چلتے گولیاں چلا کر قاتلانہ حملہ کیا تھا۔

Shuhra Koofi with her mum

،تصویر کا ذریعہShuhra Koofi

،تصویر کا کیپشنشہرہ کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ نے بہت سے خواتین کو اپنے خواب پورے کرنے کے لیے متاثر کرتے ہوئے نیا جذبہ دیا ہے

ان کی سب سے چھوٹی بیٹی نے یہ سب کچھ بہت قریب سے دیکھا ہے۔

شہرہ کوفی جن کی عمر اب 20 برس ہے نے بی بی سی کو بتایا کہ اپنی والدہ پر دو قاتلانہ حملے دیکھنا کتنا تکلیف دہ اور خوفزدہ کر دینے والا تجربہ ہوتا ہے اور خطرات کے باوجود وہ کیوں چاہتی ہیں کہ ان کی والدہ اپنے نظریے کے افغانستان کے حصول کے لیے جدو جہد جاری رکھیں۔

بال بال بچی

14 اگست کو شہرہ اور ان کی والدہ فوزیہ کوفی افغانستان کے شمالی صوبہ پروان کا دورہ کر کے واپس کابل آ رہی تھیں کہ ایک ہندو مندر نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔

شہرہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’ان کی والدہ فوزیہ کوفی کہہ رہی تھیں کہ یہ مندر واقعی بہت خوبصورت ہے۔ وہ سبز اور لال قمقموں سے سجا ہوا تھا۔‘

جلد ہی انھیں اس جگہ کچھ مشکوک کارروائی کا احساس ہوا۔

’ہم نے دیکھا کہ دو کاریں ہمارا تعاقب کر رہی تھیں، ہم نہیں جانتے تھے کہ وہ کہاں سے آئی تھیں۔‘

Fawzia Koofi flanked by her daughters

،تصویر کا ذریعہShuhra Koofi

،تصویر کا کیپشنفوزیہ کوفی نے اپنے شوہر کی تپ دق کے باعث وفات کے بعد اپنی بیٹیوں کو اکیلے پالا ہے

اسی وقت شہرہ اور ان کی والدہ کو یہ سنسنی خیز احساس ہوا کہ اُن پر حملہ ہونے والا ہے۔

’حملے سے بالکل پہلے ایک کالی گاڑی ہمارے سامنے آ گئی اور ہمارے ڈرائیور نے ہارن بجانا شروع کر دیا تھا، پھر ہم نے پیچھے سے گولیوں کی آوازیں سنی، فائرنگ میری والدہ پر کی جا رہی تھی، وہ گاڑی کے دائیں جانب بیٹھی تھیں۔‘

شہرہ یاد کرتی ہیں کہ دو گولیاں چلائیں گئی تھی، پہلی گولی کا نشانہ خطا ہو گیا۔

گاڑی کی پچھلی سیٹ پر شہرہ اپنی والدہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں، انھوں نے اپنی والدہ کے سر کو ڈھانپنے کی کوشش کی اور انھیں سیٹ کے نیچے ہو جانے کا کہا اور اسی اثنا میں ڈرائیور نے گاڑی کی سپیڈ بہت زیادہ بڑھائی تاکہ وہ دونوں حملہ آور گاڑیوں کے درمیان پھنس نہ جائیں۔ انھوں نے حملہ آوروں کو بالکل بھی نہیں دیکھا۔

’ہمیں وہاں سے نکلنا تھا ورنہ وہ دوبارہ ہم پر گولی چلاتے۔‘

پہلا قاتلانہ حملہ

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ شہرہ نے اپنی والدہ پر قاتلانہ حملہ ہوتا ہوا دیکھا ہو۔

Afghan's ex president Hamid Karzai with Fawzia Koofi

،تصویر کا ذریعہShuhra Koofi

،تصویر کا کیپشنفوزیہ کوفی پر حملے کے بعد سابق افغان صدر حامد کرزئی سمیت بہت سے سیاسی رہنماؤں نے ہسپتال میں ان کی عیادت کی

سنہ 2010 میں فوزیہ کوفی پہلے ہی رکن پارلیمان تھیں اور اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی کے قریب تھیں۔ وہ افغانستان کے دیہی صوبے ننگرہار سے گزر رہی تھیں جب ان کے قافلے پر حملہ کیا گیا تھا۔

شہرہ بتاتی ہیں کہ ’میں اس وقت صرف دس برس کی تھی، میں گاڑی میں اپنی والدہ اور بہن کے درمیان بیٹھی ہوئی تھی۔ مجھے لگاتار گولیاں چلنے کی آوازیں یاد ہیں۔‘

فوزیہ اس حملے میں مکمل طور پر محفوظ رہی تھیں، پولیس محافظوں نے قافلے کو ایک محفوظ مقام پر پہنچا دیا تھا جہاں سے انھیں جہاز سے ذریعے کابل پہنچایا گیا تھا۔

’اس وقت سب پریشان تھے لیکن ہم خوش تھے کے والدہ ٹھیک ہیں اور اس واقعے میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔ لیکن اس مرتبہ صورتحال مختلف تھی۔‘

سنہ 2010 کے حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی۔

وہ کہتی ہیں ’یہ ذمہ داری قبول کرنا آسان تھا کیونکہ ہم جانتے تھے کہ یہ حملہ کس نے کیا تھا۔ مگر دوسری مرتبہ حملہ آور نامعلوم تھے اور کسی نے اس حملے کی ذمہ داری بھی نہیں لی تو اس لیے یہ ہمارے لیے زیادہ خوفزدہ اور مشکل ہو گیا ہے۔‘

تشدد کی تاریخ

فوزیہ کی طرح ان کی دونوں بیٹیاں بھی اپنے ارد گرد ایسے پرتشدد واقعات دیکھتے ہوئے بڑی ہوئی ہیں۔ بعض اوقات آپ کے گھر کا کوئی فرد ایسے واقعات میں مرنے والوں میں شامل ہوتا ہے۔

Fawzia Koofi being greeted by others

،تصویر کا ذریعہShuhra Koofi

،تصویر کا کیپشنفوزیہ کوفی کو اب ہسپتال سے رخصت دے دی گئی ہے اور وہ گھر پر صحت یاب ہو رہی ہیں

شہرہ کے نانا بھی افغان پارلیمنٹ کے رکن تھے اور انھیں افغان مجاہدین کے ایک گروہ نے ہلاک کیا تھا۔ ان کے والد طالبان کی قید کے دوران تپ دق کے مرض میں مبتلا ہو گئے تھے اور جب وہ بچی تھیں اس وقت ان کا انتقال ہو گیا تھا۔

فوزیہ نے سیاست میں اپنا کیریئر بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹیوں کی اکیلے پرورش کی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اپنے خاندان میں کسی کے کھو جانے کا ہمیشہ ڈر رہتا تھا کیونکہ میں نے عام زندگی نہیں جی تھی۔ لیکن یہ تمام عوامل کبھی بھی میرے سیاست میں آنے اور اپنا کیریئر بنانے کی راہ میں حائل نہیں ہوئے۔‘

’میرا خیال ہے میں زخمی ہوں‘

شہرہ اپنے بچپن کے خوف کو یاد کرتی ہیں جب اُس دن صوبہ پروان سے واپسی پر ان کی گاڑی تیزی سے قاتلوں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

شہرہ کا کہنا ہے کہ’ گولیاں چلنے کے چند ہی لمحوں بعد میری والدہ نے میری آنکھوں میں دیکھا اور کہا میرے خیال ہے میں زخمی ہوں، میں وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتی۔‘

اس کے بعد انھوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ شہرہ کو احساس ہونا شروع ہو گیا تھا کہ کیا ہوا ہے۔

ایک گولی پیچھے سے گاڑی کی چادر کو پھاڑتے اور سیٹ کو چیرتے ہوئے فوزیہ کوفی کے کندھے سے نیچے ان کی بازو میں آن لگی تھی۔

Fawzia Koofi with her daughters

،تصویر کا ذریعہShuhra Koofi

،تصویر کا کیپشنفوزیہ کوفی سنہ 2010 میں اپنی دونوں بیٹیوں کے ہمراہ سفر کر رہی تھیں جب ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا

’مجھے لگا میں نے انھیں کھو دیا ہے، میں یہ ہی کہتی رہی کہ خدارا اپنی آنکھیں بند نہ کریں، مجھ سے بات کریں، میں انھیں جگانے کی کوشش کر رہی تھی۔‘

شہرہ بہت زیادہ خوفزدہ تھیں کیونکہ حملہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا، وہ بدحواس ہو کر رونا شروع ہو گئی۔

’میں نے اپنا اور اپنے والد کا سر نیچے جھکا لیا اور انھیں بتایا کہ اوپر مت دیکھے وہ دوبارہ گولی چلا سکتے ہیں۔‘

خون میں لت پت

انھوں نے فوری طور پر اپنے پاس موجود سکارف کو خون کو روکنے کے لیے پٹی کے طور پر استعمال کیا تھا۔ ان کی والدہ اس وقت ابھی کورونا سے صحت یاب ہوئی ہی تھی اور ان میں خون اور آئرن کی کمی بھی تھی۔

’اس وقت اندھیرا تھا اور میں ان کا زخم نہیں دیکھ پا رہی تھی لیکن میں کوشش کر رہی تھی اور میرا سکارف اور میرے ہاتھ خون میں لت پت تھے۔‘

پہلے فوزیہ زیادہ تکلیف میں نہیں دکھائی دیتی تھیں بس وہ اپنا بازو اور ہاتھ ہلا نہیں ہا رہی تھیں۔‘ پھر تکلیف اور کرب کا آغاز ہوا۔

شہرہ نے ممکنہ برے حالات اور خیالات اور اپنی بڑی بہن کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔

انھوں نے تسلیم کیا کہ ’ہماری زندگیوں میں ہماری والدہ کے علاوہ کوئی نہیں ہے، وہ ہی ہمارا واحد سہارا ہیں۔‘

تیز رفتاری سے گاڑی بھگاتے ہوئے انھیں ہسپتال پہنچنے میں 40 منٹ لگے تھے۔

ڈاکٹروں کو فوزیہ کے بازو میں گولی تلاش کرنے سے قبل دو سی ٹی سکین کرنے پڑے اور پھر انھوں نے ان کے بازو کے اوپری حصے سے گولی نکال دی۔ انھیں ہپستال سے بہتر ہو کر رخصت ہونے میں ایک ہفتے کا وقت لگا لیکن صحت یابی میں کافی وقت لگا۔

Shuhra Koofi

،تصویر کا ذریعہShuhra Koofi

،تصویر کا کیپشنشہرہ کہتی ہیں کہ جو کچھ بھی ان کی والدہ کے ساتھ ہوا ہے اس کے باوجود وہ بھی اپنی والدہ کی طرح سیاست میں آئیں گی

طالبان ناقد

فوزیہ کوفی ان افغان خواتین کے لیے ایک پُراثر شخصیت ہیں جن کی آوازیں اکثر دب جاتی ہیں اور ان کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔

جب گذشتہ برس وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھی تھیں تو انھوں نے طالبان پر زور دیا تھا کہ امن مذاکرات کے لیے وہ خواتین ارکان کو بھی لے کر آئیں۔ طالبان نمائندے ان کی اس تجویز پر ہنسے تھے۔

فوزیہ کوفی جاری امن مذاکرات میں بہت متحرک ہیں، سیاستدانوں کو شک ہے کہ جو لوگ امن کے مخالف ہیں وہ ان پر حملے میں ملوث ہیں۔‘

تاہم طالبان نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے، مگر جس علاقے میں یہ حملہ ہوا وہاں دیگر مسلح گروہ بھی متحرک ہیں۔

شہرہ کا کہنا ہے کہ ’وہ اور ان کی والدہ اس حملے سے خوفزدہ اور بدحواس ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ان کی والدہ مایوس ہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ انھوں نے اپنے لوگوں کی مدد کی ہے تو پھر کوئی انھیں کیوں مارنا چاہتا ہے؟‘

ہم نے یہ راستہ چنا ہے

شہرہ ہی زیادہ تر اپنی والدہ کی دیکھ بھال کرتیں ہیں کیونکہ ان کی بڑی بہن شہرزاد امریکہ میں زیر تعلیم ہیں۔

Fawzia Koofi in hospital

،تصویر کا ذریعہ Shuhra Koofi

،تصویر کا کیپشنگولی فوزیہ کوفی کے داہنے کندھے کے نیچے لگی

ان کا کہنا تھا کہ ان کا اپنی والدہ کے ساتھ بہت قریبی تعلق ہے۔ ’وہ میری قریب ترین دوست ہیں۔‘

افغانستان کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ خواتین کے لیے ایک خطرناک جگہ ہے اور شہرہ کا کہنا ہے کہ خواتین سیاستدانوں کو اکثر اوقات بہت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

فوزیہ کوفی کی صاحبزادی کا کہنا ہے کہ ان کی بھی خواہش ہے کہ وہ سیاست میں آئیں۔

امریکی یونیورسٹی کابل میں زیر تعلیم شہرہ کا کہنا ہے کہ ’میں اپنی والدہ کی راہ پر چل رہی ہوں۔ وہ میرے لیے مشعل راہ ہیں۔ میں اپنے ملک کو دہشت گردوں اور ناانصافی سے آزاد دیکھنا چاہتی ہوں۔‘

افغانستان کی سیاست پر مردوں کی اجارہ داری ہے۔ شہرہ کو اس بات کا علم تھا کہ خواتین کو کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا، خاص طور پر جب انھوں نے دیکھا کہ کس طرح ان کی والدہ کے بارے میں اخبارات، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر نامناسب تبصرے کیے جاتے تھے۔

’پہلے میں پریشان ہوتی تھی لیکن پھر میں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ ان کی حمایت بھی کرتے ہیں۔‘

شہرہ کی والدہ فوزیہ اور ان کی آنٹی مریم ان خواتین سیاستدانوں میں شامل ہیں جن پر 2018 کے انتخاب میں شرکت کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور اس کی وجہ بتائی گئی تھی ان کے مبینہ طور پر غیر قانونی ملیشیا کے ساتھ تعلقات ہیں۔

فوزیہ کوفی نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

لیکن شہرہ اور ان کی بہن جانتی ہیں کہ ان کی والدہ پر سیاسی اور جسمانی حملے ہونا شاید کبھی ختم نہ ہوں، لیکن وہ پھر بھی نہیں چاہتیں کہ ان کی والدہ اپنا کام چھوڑ دیں۔

’میری والدہ نے ہر نوجوان لڑکی پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ انھوں نے وہ کام کیے ہیں جو افغانستان میں کوئی تصور بھی نہیں کرتا تھا کہ خواتین ایسا کر سکیں گی۔ جب وہ اس مقام پر پہنچیں جہاں پہلے صرف مرد پہنچتے تھے، تو انھیں دیکھ کر دیگر خواتین کو بھی حوصلہ ملا کہ وہ بھی اس راہ پر چلیں۔‘

شہرہ کا کہنا ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کی والدہ ایسے ہی ثابت قدم رہیں کیونکہ اس سے ان پر حملہ کرنے والوں کو معلوم ہوگا کہ ان کارروائیوں سے ان کو چپ نہیں کرا سکتے۔

’ہم نے یہ راستہ چنا ہے اور ہم اسی پر گامزن رہیں گے۔‘